جرمنی (جیوڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ ترکی سے توقع کرتی ہیں کہ وہ شام کے معاملے میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا۔ انہوں نے یہ بات ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ گفتگو میں کہی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے۔ برلن حکومت کے مطابق میرکل نے ترک صدر کو مشورہ دیا کہ شام کے معاملے پر ترکی کو کسی کارروائی سے باز رہنا چاہیے اور زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
یہ بات چیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شام میں تعینات اپنے فوجی وہاں سے واپس نکالنے کے اچانک فیصلے کے تناظر میں ہوئی ہے۔ اس امریکی فیصلے کے بعد شام سمیت پورا خطہ بے بقینی کا شکار ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان کے مطابق میرکل نے ترکی کی جانب سے شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کے عمل کو سراہا۔ مزید یہ کہ دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی طرف سے شامی تنازعے کے ایک سیاسی حل کی تلاش کے لیے کی جانے والی کوششوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر رہے ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دہشت گرد گروپ داعش کو بظاہر شکست دیے جانے کے باوجود یہ ابھی تک ایک خطرے کے طور پر موجود ہے۔ ترک نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق دونوں رہنماؤں نے قریبی رابطے برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ مزید یہ کہ دونوں رہنماؤں نے مہاجرت اور دہشت گردی کے معاملے پر بھی بات کی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر رہے ہیں۔ اس فیصلے سے شام میں سرگرم مرکزی کُرد ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹ یا YPG کو بھی دھچکا پہنچا ہے جو امریکی حمایت کے ساتھ دہشت گرد گروپ داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔
انقرہ حکومت وائی پی جی کو کالعدم کُرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کا حصہ تصور کرتی ہے۔ اسی باعث ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا تھا کہ ترکی شام میں کُرد ملیشیا کے خلاف ملٹری کارروائی کرے گا۔