امریکہ (جیوڈیسک) سرکردگی میں کارروائی کرنے والی اتحادی افواج نے دولتِ اسلامیہ کے اُن جنگجوؤں کے خلاف اب تک سب سے موثر اور مسلسل حملے کیے ہیں جو ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شامی قصبے کوبانی پر حملہ آور ہیں شامی کرد جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ یہ حملے اب تک کے سب سے موثر حملے تھے مگر انہیں بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی رک گئی ہے۔ اس سے قبل تک صدر رجب طیب اردوغان نے خبردار کیا کوبانی دولتِ اسلامیہ کے ’قبضے میں جانے کے قریب‘ ہے۔ دوسری جانب ترکی میں کرد شہریوں کی جانب سے حکومت کے فوجی امداد نہ دینے کے فیصلے کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میں نو افراد ہلاک جبکہ نو شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
اب تک کوبانی پر دولتِ اسلامیہ کے تین ہفتوں سے جاری حملوں کے نتیجے میں تقریباً 400 افراد مارے جا چکے ہیں اور تقریباً 160000 شامی فرار ہو کر سرحد پار ترکی میں پناہ لے چکے ہیں۔
امریکی افواج کی جانب سے تازہ ترین پریس ریلیز میں پانچ فضائی حملوں کی تصدیق کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ حملے پیر اور منگل کو کیے گئے مگر کہاں کیے گئے یہ نہیں بتایا گیا۔ اس پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس حملوں میں دولتِ اسلامیہ کی چار مسلح گاڑیوں کو تباہ کر دیا گیا اور ’دولتِ اسلامیہ‘ کا ایک ’یونٹ‘ تباہ کر دیا گیا اور ایک ٹینک اور ایک بکتر بند گاڑی جزوی طور پر تباہ ہوئی۔
منگل کی سہ پہر کو مزید فضائی حملوں کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد اب تک ان حملوں کی تعداد آٹھ ہو چکی ہے۔ پال ایڈمز کا کہنا ہے کہ ان مسلسل حملوں کے نتیجے میں شہر کے اندر لڑائی کافی حد تک کمزور ہوئی اور اب نسبتاً خاموشی ہے یا اکا دکا فائرنگ کی آوازیں سنی جاتی ہیں۔
میسا عبد جو ایک خاتون کرد کمانڈر ہیں نے ’گذشتہ رات سے ہم نے کوبانی کے ارد گرد اب تک کے سب سے موثر فضائی حملے دیکھے ہیں تاہم یہ کچھ تاخیر سے ہیں۔ اگر اتحادیوں نے اس طاقت اور اثر کے ساتھ پہلے حملے کیے ہوتے تو ہم دولتِ اسلامیہ کو شہر کے قریب نہ پہنچے دیکھتے اور بہت سی جانیں نے ضائع ہوتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اب ان کے اور اتحادیوں کے درمیان کچھ رابطے ہیں جو نشانہ بنائے جانے سے متعلق ہیں مگر انہوں نے ان رابطوں کو بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اتحادیوں کے فضائی حملوں کی مدد سے ہم دولتِ اسلامیہ کو شکست دے سکتے ہیں۔‘
ترک صدر اردو غان کے بیان کے کوبانی دولتِ اسلامیہ ’کے قبضے میں جانے کو ہے‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ (اردوغان) خواب دیکھ رہے ہیں اور کوبانی کبھی بھی قبضے میں نہیں جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دولتِ اسلامیہ شہر میں داخل ہونے کی کوشیں کر رہی تھی مگر ہمارے جنگجوؤں نے بہت بہادری دکھائی اور ان کے بھاری ہتھیاروں سے کیے گئے حملوں کا مقابلہ کیا ہے۔‘ صدر اردوغان نے شامی مہاجرین کے ایک کیمپ میں دورے کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فضائی طاقت کے استعمال سے دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے مغرب کو پہلے خبردار کیا تھا۔ ہم تین چیزیں درکار تھیں، نو فلائی زون، اس کے برابر ایک محفوظ زون اور اعدال پسند شامی باغیوں کی تربیت۔‘ انہوں نے کہا کہ ’یہ دہشت گردی ختم نہیں ہوگی جب تک ہم زمینی کارروائی کے لیے تعاون نہ کریں‘ تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
اس کے علاوہ سینکڑوں مظاہرین نے برلن اور جرمنی کے دوسرے شہروں میں مظاہرے کیے۔ نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کے شام پر خصوصی ایلچی سٹیفن ڈی مستورا نے کہا کہ شامی کردوں نے کوبانی کا بہت ہمت کے ساتھ دفاع کیا ہے اور عالمی برادریکو اب ان کی مدد کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیں تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ زمینی افواج کو اس لڑائی میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔