بیروت (جیوڈیسک) شام کے شہر حلب میں اپوزیشن جماعتوں اور حکومت مخالف عسکری گروپ نے اقوامِ متحدہ کے خصوصی سفیر اسٹیفن ڈی مسٹورا کی جنگ بندی کی اپیل مسترد کردی ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے حلب میں جنگ بندی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے حلب انقلابی کمیشن کا کہنا تھا کہ اگراقوامِ متحدہ کے خصوصی سفیر اسٹیفن ڈی مسٹورا نے شامی ڈرامے کے خاتمے کی تجویز میں صدر بشارالاسد اور ان کے اسٹاف کو عہدے سے ہٹانے اور ان پر جنگی جرائم کے مقدمے کا آپشن نہ رکھا تو ہم مذاکرات سے انکار کردیں گے۔
حلب انقلابی کمیشن (دی کمیشن آف الیپو ریوولوشنری فورسز) کے نام سے یہ نیا گروپ ہفتے کو ترکی کے سرحدی علاقے کائلس میں بنایا گیا ہے جس میں اتحاد کے جلاوطن سربراہ خالد خوجہ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ گروپ کا کہنا تھا کہ ڈی مسٹورا کا منصوبہ ہمارے ان لوگوں کے انسانی بحران کے خاتمے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا جنہیں حکومت کیمیائی ہتھیاروں اور بیرل بموں کا نشانہ بنارہی ہے جب کہ عالمی برادری نے ان ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ترجمان کے مطابق حقائق جمع کرنے والے اس مشن کا مقصد جنگ بندی کے بعد کے حالات معلوم کئے جائیں تاکہ متاثرین کی امداد بڑھانے کے ساتھ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی روکی جائیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر نے تجویز دی تھی کہ حلب میں کم از کم چھ ہفتے تک جنگ بندی کی جائے۔
ڈی مسٹورا نے اس سے قبل شام کے دارالحکومت دمشق میں پہلے حلب میں جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا تھا جو جنگ سے متاثرہ دوسرا بڑا شہر ہے، انہوں نے شامی حکومت کے اہلکاروں سے بھی مذاکرات کیے اس دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ حلب میں بندوقوں کو خاموش کرانے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ حلب شام کا ایک اہم تجارتی مرکز تھا اور 2012 میں یہاں چھڑنے والی خانہ جنگی کے بعد یہ کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے جب کہ یہ شہر اب حکومت کی حامی افواج اور مخالف ملیشیا میں تقسیم ہوچکا ہے۔ شام میں مارچ 2011 میں تنازعات کچھ ماہ بعد خانہ جنگی میں بدل گئے اور اب تک اس میں 2 لاکھ 20 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ لاکھوں افراد پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔