تحریر : میر افسر امان یہ شام ٤ اپریل ٢٠١٥ء کی تھی جب ہماری ویب کے جناب ابرار احمد صاحب نے ہماری ویب کے لکھاریوں کو آرٹ کونسل کراچی میں مدعو کیا تھا جس کے چیف گیسٹ جناب پروفیسرسحر انصاری صاحب تھے۔ رائٹرز کلب کے جنرل سیکر ٹیری عطا محمد تبسم صاحب نے بی بی سی کے وسعت اللہ خاں صاحب کو بھی شرکت کی وعوت دی گئی تھی مگر بوجہ وہ اس پروگرام میں شامل نہ ہو سکے۔ اس اکھٹ کی وجہ کچھ اسطرح ممکن ہوئی کہ جناب ابرار احمد کو خیال آیا کی کیوں نہ ایک تنظیم بنائی جائے جس میں ہماری ویب کے لکھاری حضرات کو مل بیٹھنے کا بہانہ مل جائے۔ ویسے تو ادبی، ثقافتی، کتاب کی اشاعت، کتاب کلچر کو پروان چڑھانے اور تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ اور ترقی کے لیے پاکستان میں بے شمار ادارے کام کر رہے ہیں۔ مگر ضرورت اس امر کی تھی کہ آن لائن لکھنے والوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کاکوئی ایسا ادارا قائم کیا جائے جو ایسے مصنفین کی رہنمائی کرے۔
چناں چہ انہوں نے بتاریخ ١٠ جنوری ٢٠١٥ء کو کراچی میں موجود ہماری ویب کے لکھاریوں کو اپنے دفتر پارک ایونیو، دسواںمحلہ شاہرہ فیصل پر بلایا۔ ویسے تو ہماری ویب کے ملکی اور غیر ملکی لکھاریوں کی تعداد چھ ہزرا کے قریب ہے۔ مگر اس میٹنگ مین کراچی میں موجود چیدہ چیدہ لکھاری شریک ہوئے۔ اس ہی میٹنگ میں رائٹرز کلب کے نام سے ہماری ویب کے لکھاریوں کی ایک تنظیم بنا ڈالی۔ اس تنظیم کے چیئرمین ابرار احمد صاحب، صدرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب۔جنرل سیکرٹیری عطا محمد تبسم صاحب،کوآرڈینیٹر (١)خواجہ مصدق رفیق صاحب، کوآڈینیٹر(٢) محمد اعظم عظیم اعظم صاحب،سیکرٹیری محمد ابراہیم خان صاحب،سیکرٹیری شیخ خالد شاہد صاحب،سیکرٹیری سلیم اللہ شیخ صاحب اور راقم اور کچھ دوسرے حضرات بنیادی رکن قرار پائے۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سب کچھ فوراً بس ایک ہی میٹنگ میں ہو گیا ۔ بل کہ اس سے قبل کئی دفعہ ابرار احمد صاحب ہماری ویب کے لکھاریوں کو چائے اور کھانے کی دعوتوںپراپنے دفتر میں بلاتے رہے ہیں۔ متعدد دفعہ ہماری ویب کے لکھاریوں کو اچھی کارکردی کی وجہ سے سرٹفکیٹ بھی دیتے رہے ہیں۔ کئی دفعہ ٹی سی ایس کے ذریعے تحائف بھی بھیجتے رہے ہیں۔ رائٹرز کلب بنانے کے لیے کئی مشاوارتی اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے ہیں۔ پوری مشاوارت اورکافی سوچ بچارکے بعد ہماری ویب رائٹرز کلب کا وجود ممکن ہوا ہے۔ رائٹرز کلب کے باقی مقاصد کے علاوہ یہ طے پایا تھا کہ ہماری ویب پر تمام لکھنے والوں کی ای بکس (ڈیجیٹل بکس)تیار کی جائیں گے۔ ہماری ویب کی طرف سے ابتدائی طور پر پندرہ لکھاریوں کی ای بکس تیار کی گئیں جس میں راقم بھی شامل ہے۔یہ شام ان ہی ای بکس کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی تھی۔ پروگرام اللہ کے بارکت نام سے شروع ہوا۔ اس کے بعد نعت شریف پڑھی گئی۔ پھر ابرار احمد صاحب نے ہماری ویب کا تعارف کرایا۔ ہماری ویب ٢٠٠٧ء کو وجود میں آئی۔
Development
ترقی کے منزل طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچی ہے کہ اب اس کے لکھاریوں کی ملکی اور غیر ملکی تعد چھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں انگلش اور اردو لکھاری شامل ہیں۔ ہماری ویب کو وزٹ کرنے والوں کی تعد اد ایک کروڑ اسی لاکھ سالانہ ہے۔اس کے سیکشن کی تعداد چا لیس کے قریب ہے ۔اس میںآئن لائن خبریں، حالت حاضرہ، کالمز،شو بز، ایونٹس، شاعری، مزاح، دنیا کے عجائب، تلاوت قرآن شریف، نعت، اردو انگلش ڈکشنری وغیرہ ہیں۔ سب سے بڑی بات جو ہم لکھاریوں کے لیے ہے کہ ہمارے مضامین کو تاریخ وار محفوط کیا ہوا ہے ۔ لکھاری ہماری ویب پر” اپنا کالم” سیکشن کھول کر اول تا آخر تک اپنے مضامین کو دیکھ سکتا ہے۔ہر لکھاری اپنی ای بک بھی وازٹ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد محترم ڈاکٹر صمدانی صاحب نے رائٹرز کلب کے اغراض و مقا صد پر گفتگو کی۔ اسٹیج سیکرٹیری کے فرائض عطا محمد تبسم صاحب جنرل سیکر ٹری رائٹرز کلب نے ادا کئے۔ رائٹرز کلب کے جنرل سیکر ٹیری عطا محمدتبسم صاحب نے ایک ایک کر کے تمام لکھاری جن کی ای بک تیا ہوئیں تھیں اسٹیج پر بلایا۔ اں کا تعارف بیان کیا اور ہر ایک کو ٢ منٹ بولنے کا وقت بھی دیا۔ اس سے قبل پروگرام کے شروع سے ہی سلائڈ پر تمام ای بکس کا تعارف سامعین کو دکھایا جا رہا تھا۔ ای بک کے ٹائلز پر لکھاری کے فوٹو کے ساتھ اس کے مضامین کی تعداد اور کتنے لوگوں نے ان کے مضامین کو وزٹ کیا دکھایاگیا۔ اس کے ساتھ ای بکس کے چند منتخب مضامین کو بھی سلائڈ پر ہائی لائیٹ کیا جا رہا تھا۔ ابتدائی طورجن لکھاریوں کی ای بکس تیار ہوئیں ان میںخواتین بھی شامل تھی۔ اس پروگرام میں لکھاری خواتین کے علاوہ دوسری خواتین بھی شامل تھیں۔ ہماری ویب کے اسٹاف نے ایک ایک کر کے ہماری ویب کی کارکردگی رپورٹ بھی سلائڈ کی مدد سے سامعین کے سامنے پیش کی اور تالیوں کی شکل میں داد بھی وصول کی۔
آخر میں فوٹو سیشن بھی ہوا۔ جس میں تمام لکھاری صاحبان کا فوٹو مہمان خصوصی سحر انصاری صاحب، ابرار احمد صاحب، صدر ڈاکٹر صمدانی صاحب، سیکر ٹیری عطا محمد تبسم صاحب کے ساتھ بنایا گیا۔اس کے بعد شریک خواتیں کابھی فوٹو ان محترم شخصیات کے ساتھ بنایا گیا۔ ہماری ویب کے اسٹاف کا بھی فوٹو بنایا گیا۔ آخر میں سحر انصاری صاحب نے معلومات سے بھرا خطاب کیا۔انصاری صاحب مشہور معروف ادیب، شاعر، استاداور کافی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہم پاکستان میں اردو کی ترقی کے لیے کچھ کریں نہ کریںبھارت میں اردو کی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا ہے اس میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی شامل ہیں۔ بھارت کے چھ صوبوں کی سرکاری زبان اردو ہے ۔ ایک ہندو نوجوان ریختہ (ایختہ اردو کا قدیم نام)کے نام سے ویب چلا ہے۔ اس نے بھی انصاری صاحب کی ای بک تیار کی ہیں۔ انصاری صاحب نے کہا بیماری کے باوجود جب بھی مجھے نوجوان کسی پروگرام میں بلاتے ہیں تو میں بخوشی ان پروگراموں میں شریک ہو تا ہوں مجھے پاکستان کے نوجوانوں سے ہی امیدیں ہیں۔ میں دیکھ کر خوش ہوا ہوں
اس پروگرام میں بھی نوجوان شریک ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کو آہندہ بھی جب کبھی پروگرام کر نا ہو کراچی آرٹ کونسل کی جگہ آپ کے لیے حاضر ہے۔ صدر رائٹرز کلب ڈاکٹر صمدانی صاحب نے اپنی صدارتی تقریر کے دوران انصاری صاحب کی کتابوں کی ای بکس تیار کرنے ک کی اجازت مانگی تھی جس کی انصاری صاحب نے بخوشی اجازت دے دی۔انصاری صاحب کی فکر انگیز صدارتی خطاب سن کر ذہن میں خیال آیا کہ پاکستان بنے ٦٨ سال گزر گئے ہیں ہم پاکستان کے مسلمان جن کی قومی زبان اردو ہے اس کو ابھی تک قومی سرکاری زبان نہ بنا سکے۔ جبکہ دنیا کے تمام براعظموں میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اردو برصغیر کی رابطے کی زبان تھی۔ اردو زبان کو استعمال کر پاکستان وجود میں آیا تھا۔ ہماری ویب نے مہمانوں کے لیے لائٹ ریفریشمنٹ کا بھی ا نتظام کیا تھا۔ لائٹ ریفریشمنٹ کے بعد مہمان اپنے گھروں کاچل دیے۔ اس طرح کراچی آرٹ کونسل میں منعقدہ ”ایک شام ہماری ویب کے نام” کا اختتام ہوا۔