شام (جیوڈیسک) شام کے شمالی علاقے میں باغیوں کے ایک بڑے گروپ پر اس الزام کے بعد اس کے داعش کے ساتھ رابطے ہیں، باغی گروہوں کے درمیان لڑائیاں چھڑ گئی ہیں۔
یہ لڑائیاں کئی دن تک ادلب کے صوبے میں ہوتی رہی ہیں جس سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ لڑائیوں کے نتیجے میں علاقے پر باغی گروپس کا کنڑول کمزور پڑ سکتا ہے کیونکہ انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے شام اور روس کی جانب سے فضائی حملوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھے والے ایک شامی گروپ نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں باغیوں نے شام کی سرکاری فورسز کے خلاف لڑائی کر دی تھی اور ان کے زیر قبضہ 30 فی صد علاقہ سرکاری فورسز نے ان سے واپس چھین لیا تھا۔
سن 2012 سے شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی اب مزید پیچیدہ ہوچکی ہے کیونکہ شام کے صدر بشار الأسد کے خلاف جاری مہم کے سلسلے میں درجنوں مسلح باغی گروپ وجود میں آچکے ہیں ۔
امریکی میں قائم ایک تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے تجزیہ کار فیصل عطانی کہتے ہیں اگر باغی اپنے اختلافات دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ شام کی حکومت کے خلاف ایک ٹھوس محاذ بناسکتے ہیں۔