شام (جیوڈیسک) عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام 2015ء کے دوران صحت کے کارکنوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ رہی۔ شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں شامی حکومت کی فضائی کارروائیوں میں پانچ عارضی طبی مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے جس سے ایک بچہ ہلاک ہو گیا۔
ان طبی مراکز سے مقامی آبادی کے دو لاکھ سے زائد افراد کو صحت کی سہولت فراہم کی جاتی تھی تاہم اس حملے سے اس عمل کو نقصان پہنچا۔ شام میں جنگ کی صورت حال پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم ’سیئرین آبزر ویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ ہفتے کو ہونے والی ان کارروائیوں میں حلب کے صوبائی دارالحکومت میں صحت کے چار مراکز جب کہ شہر کے مغرب میں واقع اتارب کے قصبے میں ایک مرکز کو ناکارہ بنایا دیا گیا ہے۔
شامی حکومت اور اتحادی فوجوں نے گزشتہ ہفتے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے حلب کو محاصرے میں لیا۔ اس محاصرے کی وجہ سے باغیوں کی زیر کنٹرول علاقوں کے مکینوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام 2015ء کے دوران صحت کے کارکنوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ رہی۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال یہاں صحت کے کارکنوں اور صحت کے مراکز پر 135 حملے ہوئے۔
شامی حکومت نے اتوار کو کہا کہ وہ پانچ سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہے۔ شام کے سرکاری خبررساں ادارے ثنا نے وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ “شام اقوام متحدہ کے تعاون سے ۔۔ بغیر کسی پیشگی شرائط اور بغیر کسی بیرونی مداخلت کے شامیوں کے آپس کے مذاکرات کو جاری رکھنے پر تیار ہے”۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی اسٹیفن ڈی مستورا کے مطابق اقوام متحدہ آئندہ ماہ شامیوں کے آپس کے مذاکرات کے ایک نئے دور کے شروع ہونے کی امید کرتی ہے۔ رواں سال شام میں لڑائی میں اضافے کے بعد یہ امن مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔