واشنگٹن (جیوڈیسک) اگلے ہفتے دنیا بھر کے ملکوں کے سربراہان اور اعلی عہدے دار اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے نیویارک میں اکھٹے ہورہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس موقع پر شام میں جاری جنگ اور پناہ گزینوں کا بحران ایجنڈے کا اہم موضوع بنے گا۔
عالمی راہنما شام کی جنگ کے بیرونی علاقوں پر مرتب ہونے والے اثرات کو محدود تر رکھنے کے خواہش مند ہیں ۔ خاص طور پر ہمسایہ ملکوں اور یورپ میں بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کی آمد کو۔ وہ اقوام متحدہ کے دو اہم اجلاسوں میں پناہ گزینوں کے مسئلے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون پیر کے روز پہلے اجلاس کی صدرات کریں گے۔
وہ کہہ چکے ہیں کہ مزید ممالک ان لوگوں کو اپنے ہاں آباد کرنے کے لیے آگے آئیں جنہیں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ہر شخص کو ہر جگہ اس عداوت اور دشمنی کے خلاف لازماً اٹھنا چاہیے جس کا سامنا بہت سے پناہ گزینوں، تارکین وطن اور اقلیتی قومیتوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی صدر براک أوباما منگل کے روز دوسرے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ امریکی معاون وزیر خارجہ شیبا کروکر کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ وہ انسانی ہمدوردی سے منسلک مسائل کو اپنا موضوع بنائیں گے۔
یونیورسٹی آف کولمبیا کے تجزیہ کار رچرڈ گوان کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے اس سربراہ اجلاس میں لگ بھگ ان پچاس لاکھ شامی پناہ گزینوں کے مسائل کے حل کے لیے بہت کچھ کیے جانے کی توقع ہے جنہیں جانیں بچانے کے لیے اپنے وطن سے بھاگنا پڑا۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام کے بحران کو صرف سیاسی معاہدے کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ جنرل اسمبلی میں اس موضوع پر کچھ بات ہوگی، لیکن چونکہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نیویارک نہیں آ رہے اس لیے وہاں اس سلسلے میں سنجیدہ بات چیت کی توقع نہیں ہے۔
اگلے ہفتے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں ولادی میر پوٹن، ژی جن پنگ اور آنجلا مرخیل موجود نہیں ہوں گے۔ اور امریکی صدر براک أوباما کے لیے یہ ایک بین الاقوام اجتماع سے خطاب کرنے کا آخری موقع ہوگا اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ان کی تقریر ایک خاص اہمیت کی حامل ہوگی۔
اسی طرح سیکرٹری جنرل بن کی مون کے لیے بھی اپنے عہدے کے حوالے سے ان کا آخری اجلاس ہو گا اور ان کے عہدے کی ميعاد 31 دسمبر کو ختم ہو جائے گی۔