تحریر : تنویر احمد یونان کا جزیرہ لیس بوس کا ساحل ہے سمندری طغیانیاں عروج پر ہیں ساحل کی پٹی پر ایک ریسکیو اھل کار ایک معصوم کلی کو اٹھاے کنارے کی اور بڑھ رھا ھے ۔ نازک کلی کی آنکھیں بند ہیں ،نیم بے ہوشی کے عالم میں یہ معصوم عن الخطا بچہ کون ہے ؟یہ یہاں کیوں ڈوبا ؟سمندر کے مہیب تہھپیڑوں میں اپنی جان کی بازی لگانے والا کیا ٰیہ صرف اکیلا ہے۔۔؟
قارئین کرام !جواب اپکو نہیں میں ملے گا کیوں کہ یہ ایک بچہ نیہیں بلکہ لاکھوں معصوم پھول ہیں جو کبھی ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پڑے ساری دنیا کو رلا دینے والے مناظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔یہ ننھے منھے پھول ایسے کربناک نقش چھوڑتے ہیں کہ دنیا سفاک ظالم بھی رو پڑتے ہیں ،آخر یہ کون لوگ ہیں ۔۔؟جن کے ہزاروں خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے ،پانچ لاکھ سے زائد پر امن احتجاجی قبروں میں جاسویئے اور جن کی آبادی پر ہزاروں کلسٹر بموں کی بارش کر کے بچوں بوڑھوں خون میں تڑپا کر پیوند خاک کردیا ،
آخر یہ کون مجرم ہیں ۔۔؟جن پر کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کو استمال کر کے عدم سفر کی طرف روانہ کردیا،سارے عالم نے دییکھا ننھے اور جوان مرد وعورتیں تڑپ تڑپجانیں دے رہے ہیں اس دوران ان کے جسم نیلے پڑرہے ہیں منہ سے جھاگ اور خون نکل رہا ہیے اور انکے پیاعرے ان پر پانی ڈال انکی گنتی کی سانسیں بڑھانیں کیلئے تڑپ رہے ہیں ،اور ہزاروں مائیں اپنے جگر گوشوں کو گودوں میں چھپائے سینہ سے چمٹائے غاروں کھنڈروںمیںچھپائے بیٹھی ہیں نجانے ان غاروں کونوں میں انکو کھانا پینا کہاں سے ملتا ہے وہ اٹھتے بیٹھتے کہاں ہونگے ،کتنے دل کے ٹکڑے اپنے والدین کے کندھوں پر سوار والدین کی گود میں زندگی گزارنے کو ترستے ہیں اور جانے بچانے کیلئے کتنے سالوں سے چیختے چلاتے نظر آرہے ہیں،اور کتنی بہنیںاپنی ہجرت کرتے اپنی پامال کر بیٹھیں۔۔۔۔۔لیکن کسی کا دل نہیں پسیجتا ۔۔۔۔کسی کو ترس نہیں آتا ۔۔۔کسی کے آرام میں خلل نہیں پڑتا ۔۔۔محسوس ایسے ہوتا ہے کہ سبھی تماش بینوں کی کوشش اور آرزو یہی ہے کہ یہ خونی تماشا یونہی جاری رہے ،اور انکی شب و روز کی محفلوں میں سرخ رنگ کی محفلیں رنگین رہیں۔
قارئین کرام !اپ سوچ رہے ہونگے یہ بد قسمت مظلوم و مقہو ر در در کی تھو کریں کھانے والے کون لوگ ہیں۔۔؟اور جن پر ملک کی قلیل ترین تعداد جو ہوس اقتدار کے بھوکے زر پرست نادان حریص کتوںکی طرح حملہ آور ہیں ۔
فیاللعجب ۔۔۔۔!امن و آشتی کی علمبردار تنظیم اقوام متحدہ ان بھیڑوں کے سامنے لونڈ ی بنکے رہ گئی ہے
عرب ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں،دنیا کا ٹھیکیدار امریکہ بد قماش ،منافق اعظم جیسا کردار ادا کر رہا ہے ۔
قارئین عظام۔۔!یہ دنیا کی مظلوم و مجبور قوم کا تعلق انبیائے کرام کی سرزمین شام] سوریا [سے ہے ،جن کیلئے امام کونین ۖ نے خصوصی دعا فرمای کہ اے اللہ ! شام والوںپر رحمت وبرکت فرما ]بخاری [
شام دنیا کے قدیم ممالک میں سے ایک اور مختلف تہزیبوں کامرکز رہا ہے ،اس پر یکے بعد دیگرے کنعانیوں ،عبرانیوں ،اشوتریوں،بخت نصر ،یونانی ،رومی ،بازنطینی ،ایرانی ،اور عربوں نے حکومت کی ۔٦٣٦ء میں مسلمانوں نے فتح کیا ، ٦٦١ء سے ٧٥٠ء تک اموی سلطنت قائم رہی پھر عباسیوں نے قبضہ کیا ١٤٠٠ میں امیر تیمور نے دمشق اور گردو نواح کو تباہ کیا ،اور ہر قسم کے ہنر مندوں کو اپنے پاس سمر قند لے گیا ،١٥١٧ میں سلطان سلیم عثمانی نے شام فتح کیا اس کے بعد بیسیویں صدی کے شروع تک یہ سلطنت عثمانیہ تحت رہی ۔١٩٢٠میں فرانس نے شام پر مکمل قبضہ کیا ،اور اس نے برطایہ کے ساتھ ملکرایک سازش کے تحت خفیہ معائدہ کیا جس میں شام کو تقسیم کر کے ایک حصہ یہود کی ناجائز ریاست کو دیا گیااور دوسرا مسلم دشمن نصیروں ظالمو ں کے حوالے کیا گیا ۔
عالم اسلام کی آنکھوں کا تارہ جرنیل اسلام سیف اللہ خالد بن ولید یہاں مدفون ہیں ،اورفاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی، سرخیل اسلام امام ابن تیمیہ ،ابن القیم ،عظیم مئورخ ابن عساکر ، یہ سب دمکتے ہیروں کا تعلق اسی سر زمین شام سے ہے جو صدیوں سے حریت ،غیرت ،فکر و فلسفہ کا درس دیتے تھے ۔
آج سے ٤٢ برس سے یہاں ایک اقلیتی گمراہ فرقہ ]نصیری [ہوس پرست مسند اقتدار پر مسلط ہے ،حافظ الاسد نصیری نے نومبر٧٠ ١٩ہء میں اقتدار پر قبضہ کیا ،اس پلید شخص نے ٧٠فیصد سنی آبادی والے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا کر نصیری آمیریت قائم کر لی ،۔
حماةکے شہر والے باشندوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کیا ،تو ١٩٨٢ء میںان پر ٹینک چڑھا دئے گئے اور حماة کی جامع مسجد میں سینکڑوںسنی مسلمان شہید کر دیئے گئے،مسجد کو منہدم کیا گیا،اس پندرہ روزہ خونی اپریشن میں بیس ہزار مسلمان شہید کردئے گئے ٢٠٠٠ء میں حافظ الاسد اپنے انجام کو پہنچا اس کے بعد اسکا شریر بچہ ]امرا ض چشم ڈاکٹر[بشار الاسد اسکا نجانشین بنا ۔آج سے چار سال قبل مشرق وسطی میں عوامی انقلاب برپا ہوئے جس نے پورے وسطی ممالک کواپنی لپیٹ میں لے لیا ،ان میں شام بھی سر فہرست ہے یہاں انقلاب کا آغاز جنوبی شہر ]درعا [سے ہوا جسکو ]اذرعات شام [بھی کہا جاتا ہے جو دمشق سے ١٠١ کلو میٹر فاصلے پر ہے ، اس شہر کے مڈل سکول کے طلبہ اللہ اکبر نحن حرنا آذادی شام کے نعرے کلاس رو م کی دیواروں پر لکھے ،لیکن یہ بشار درندے کیلئے ناقابل معافی جسارت تھی ،چناچہ خفیہ پولیس نے اس سکول سے دو سو بچیوں سمیت ٥٠٠طلبہ گرفتار کرلیا ان پر بد ترین تشدد کیا گیا معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی ،٥٠بچوں کی انگلیا ں کاٹ لی گئیں،حتی کہ خفیہ ادارے کے غنڈوں نے آٹھ آٹھ سالوں کے بچوں کو ٹارچر کرتے رہے ،مزید ظلم کی بات جب والدین نے واپسی کا مطالبہ کیا کہ ہمارے بچوں کو واپس کرو تو جواب ملا اب اگلے جہان ملنا ،اس جواب پر عوام مشتعل ہو گئی اور پورا شہر درعا سڑکوں پر نکل پڑا ۔
اس کے جواب میں سفاک حکومت نے نہتوں پر ٹینکوں اور توپ خانوں سے بھر پور طاقت کا استعمال کیا جس سے یہ ہنستا بستا چھوٹا سا شہر خون کی بہتی ندیوں میں سرخ ہوگیا۔٢٠٠سو سے زائدمعصوم شہری شہید کردئے گئے ،تاریخی مسجد عمر بن خطاب کو شدید نقصان پہنچایا ،اہل درعا سے اظہار یکجہتی کیلئے ،حمص ،حلب ،انطاکیہ، اور دارالحکومت دمشق کے شہربھی سڑکوں پر نکل پڑے جن کو بے دردی سے شہید کردیا ۔
ساحلی شہر بانیاس کی خواتین مظاہرے میں آگے آگے تھیں ،جن کو ڈپٹی چیف آف سٹاف جنرل آصف شوکت ]بہنوئی بشار [ نے اپنی موجودگی میں عفت ماٰب خواتین کو مشین گنوں سے بھون ڈالا ،اور سا حل سمندر میں لنگر انداز جنگی جہاز وں سے بھی گولے داغے گئے ۔اسی طرح حمص کے شہر ]تل کلح[ میں خونی آپریشن شروع کیا گیا ،یہ ایک لاکھ کی آبادی کاشہر تھا جوکہ لبنان کی سرحد کے قریب تھا یہاں نصیری مذہب والے لا دین لوگوںنے مسلح ہو کر سنی شہرپر اندھا دھند فائرنگ کر دی ،چشم فلک نے وہ منظر دیکھا جب تل کلح کی گلیوں میںخون کی تو ندیاں بہ رہی تھی ،درندگی کی انتہا ء کہ بچے کھچے لوگ جب جنازہ پڑھنے لگے تو درندہ صفت نصیریوں نے گلی سڑی لاشوں پر بمباری کردی ۔
بشار کی حکومت نے نصیری عادی مجرموں اور پیشہ ور قاتلوں کو مسلح کر کے]، حزب الاسد ملیشیا[ تشکیل دے دی جو سرتاپا سیاہ لباس پہنے بازوں پر سرخ پٹی باندھے خونخوار ،عزتوں کے لٹیرے ،کئی سالوںسے معصوموں کا قتل عام کررہے ہیں ، اورانسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹکے مطابق٢٠١١ سے اب تک شام میں ٦٥ہزار شہری لا پتہ ہیں اور تعجب کی بات ہے یہ نصیری ملک میں صرف دس فیصد ہیں ،قطع نظر اس بات کے ان کا نظریہ کیا ہے ..؟یہ کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں..؟انکے عقائد کی تفصیل پھر کبھی ان شاء اللہ ، دیکھنا یہ ہے اتنی قلیل تعداد پوری دنیا کو نچوارہی ہے،ان کا بیک گراونڈ کیا ہے ..؟کونسی طاقتیںانکی پشتیبان ہیں ..؟کسی بھی عرب ملک میں اتنی طاقت نہیں کہ اس وحشی اونٹ کو نکیل مارے ،پورے عالم کا ماحول آزردہ کرنے والے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ،ان کی مدد کون کررہا ہے ، میں تو سمجھتا ہوں اس پر فتن دور میں ایک وسیع المشرب سلیم الطبع انسان کیلئے اس معاملے کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔بقول ہٹلر
میں جب کسی سازش کی جڑھ کا سراغ لگانا شروع کرتا ہوں، اس کے پرد ے فاش ہوتے ہیں ،توان پردوں کے پیچھے گندہ یہودی بیٹھا ہوتا ہے ۔
جسے میرے قائد اعظم نے حرامی بچہ قرار دیا ۔ وہی حرامی بچہ انتشار پھیلا کر گریٹر اسرائیل کے جھوٹے خواب دیکھ رہا ہے ( یہودیو ۔….! اس وقت کو یاد کرو جب ]بنی قریظہ[تمھارے بڑوں نے بد عہدی کی تھی تب ہمارے اسلاف نے تم کو سبق سکھایاتھا تمھارے چھوٹوں بڑوں کو نجد کے بازار میں بیچ کر اسلحہ خریدا تھا )آج کا یہودی کبھی نائن الیون جیسے جھوٹے الزام لگا کر مسلمان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجواتا ہے تو کبھی داعش جیسے جھوٹے اداکار کو دنیا کے سامنے کر کے اسلام کو بد نام کرتا ہے ،داعش کی حقیقت ایسی ہے جیسے ریمبو کا فلمی دنیا میںروس کو افغانستان میں شکست دیناہے ،داعش بھی قتل مسلم کے برابر کے مجرم ہیں ۔
آج یورپین داعش کا نام لے کر دنیا ئے کفر کو ڈرا رہے ہیں ،حلانکہ یہی داعش عراقی عوام پر تو حملے کرتی ہے ، شام کے مجاہدین ]جبہةالنصرہ [ پر اٹیک کرتی ہے ،حرمین شریفین پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیتی ہے ،حلانکہ ساری دنیا کو ہائی جیک کرنے والا اسرئیل ان کی نام نہاد خلافت کی سرحد سے ملحق ہے ،ان ظالمون نے اسکی طرف ایک فائر تو دور کی بات اس کی طرف منہ کر کے تھو کا بھی نہیں،مگر اس سے متضاد خبر یہ تو سنی گئی ہے ،کہ ان کا خلیفہ ابو بکر البغدادی یہود کا ایجنٹ ہے ،موساد کا تربیت یافتہ ہے ۔
مزید تعجب کی بات کہ یورپ کے لڑکے اور لڑکیاں گلوکار ڈاکٹر ،انجینئر، داعش میں دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں ،پچھلے دنوں کی خبر ہے کہ شام کے شہر دمشق میں ایک داعش کے ساتھی جو کہ جرمنی گلو کار تھا، بمباری میں قتل کر دیا گیا ۔اگر ان نوجوانوں کو جہاد کرنے کی تڑپ ہے تو جہادی تنظمیں اور بھی تو دنیا میں ہیں مثلا انکے قریب حماس ،شباب الاسلامی ،الفتح ،القاعدہ ،لشکر طیبہ ،ا ن میں شامل ہونے کی خبر آپ نے کبھی نہ سنی ہو گی ،سمجھنے والوں کیلئے بہت بڑی دلیل ہے ،شام میں امریکہ منافق اعظم نے اپنی چھاتہ بردار فوج اتارنے کا فیصلہ کر لیا ہے ، جس ملک کا بچہ بچہ سمندری تھپیڑوں کی نذ ر ہو چکا ،اس ملک کا وحشی سربراہ اقتدار کی ہوس لئے روزانہ بمباری کررہا ہے ،بچے بوڑھے جوان بے کسی کے عالم میں دردر دھکے کھا رہے ہیں جن کا، نہ نشیمن نہ آشیانہ نہ مال ومنال جن کیلئے نہ N G Os حرکت میں آتی ہیں ،امن کے دعویدار، ظالم جیسا کردار ادا کر رہے ہیں ،میں اپنے مخلص شامی بھائیوںکو تسلی دینے کیلئے رسول اللہ ۖ کا فرمان عالیشان ہی کافی سمجھتا ہوں،حضرت ابو دردا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا مرکزی خیمہ] فیلڈہیڈکواٹر[ شام کے سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ]الغوطہ [کے مقام پر ہوگا ۔مستدرک حاکم ، جلد ٢،ص٥٣٢ْ ۔ اب محسوس ایسے ہوتا ہے یہود کی لگی چنگاری ایک آلائوبن کر ان ہی کے وجود کو صفحہ سے مٹا دے گا وہ وقت قریب ہے ان شاء اللہ۔