نیویارک (جیوڈیسک) اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہفتے کو دیر گئے بلانے پر روس پر کڑی تنقید کی ہے۔ اس اجلاس کا مقصد شام میں ہونے والی امریکی بمباری کا جائزہ لینا ہے جس میں ممکنہ طور پر درجنوں شامی فوجی ہلاک ہوئے۔
سمنتھا پاور نے بند کمرے کے اجلاس میں جانے سے قبل نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ روس کا یہ اقدام “ایک اعلیٰ اخلاقی برتری کی شعبدہ بازی ہے ” اور اس کا مقصد کئی نسلوں میں ہونے والے شدید مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
سفیر سمنتھا پاور نے کہا کہ امریکہ اس بمباری کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں بعض اطلاعات کے مطابق دیر ازور کے علاقے میں لگ بھگ 80 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اتحادی لڑاکا طیاروں کا خیال تھا کہ وہ داعش کے انتہا پسندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ “ہمارا یہ کوئی ارادہ نہیں تھا” کہ شامی دستوں کو نشانہ بنا کر ہم عارضی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے۔
انہوں نے کہا کہ “اگر اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ ہم نے حقیقت میں شامی فوج کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے تو ایسا کرنے کا ہمارا ارادہ نہیں تھا اور بلا شبہ ہمیں جانی نقصان پر افسوس ہوا ہے”۔
تاہم پاور نے ان واقعات کا حوالہ دیا جن میں تواتر کے ساتھ شامی فورسز نے مظالم ڈھائے، اسپتالوں، اسکولوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا، شہروں کا محاصرہ کیا جس کی وجہ سے لوگ بھوک افلاس کا شکار ہوئے اور عام شہری اہداف کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ امریکہ کی سفیر نے کہا کہ ان تمام واقعات میں ماسکو نے کبھی بھی سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔
پاور نے کہا کہ، “تصور کریں کہ (سلامتی) کونسل کا اجلاس کتنی بار ہو گا اگر ہم ہر اس بار سلامتی کونسل کا اجلاس بلاتے جب ہر دفعہ روس اور شام نے اسپتالوں پر بمباری کی۔”
“روس نے ان واقعات سے متعلق مشاورت کرنے کے لیے کبھی بھی سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا تھا۔”
دوسری طرف اقوام متحدہ میں روس کے سفیر وٹالی چرکن نے کہا کہ پاور کے سخت الفاظ ایک “سخت جذباتی طرز عمل ہے۔”
چرکن نے کہا کہ امریکی فضائی حملہ ایک ایسے وقت ہونا مشکوک ہے جب دونوں ملک ایک مستقل جنگ بندی معاہدے کی کوشش کر رہے تھے اور انہوں نے اس بارے میں بھی سوال اٹھایا آیا کہ یہ واقعی ایک غلطی تھی۔
امریکہ کے لڑاکا طیاروں کی طرف سے دیر ازور کے ہوائی اڈے کے قریب شامی فورسز کو نشانے بنانے کی اطلاعات سامنے آنے کے کئی گھنٹوں کے بعد سلامتی کونسل کے ارکان کا اجلاس ہوا۔ امریکہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اتحادی کمانڈروں نے روسی حکام کو ان فضائی حملوں کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔
دوسری طرف روس کے وزیر دفاع نے اتحادی فورسز کی فضائی کارروائی کو واشنگٹن کی طرف سے روسی فورسز کے ساتھ اپنی کارروائی کو مربوط بنانے سے ایک’ کھلا انکار’ قرار دیا جو بشارالاسد کی فورسز کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہیں۔
اس عارضی جنگ بندی کا مقصد شامی فورسز، ان کے روسی حلیفوں اور امریکہ کے حمایت یافتہ باغیوں کی فوجی کارروائی کو روکنا تھا جو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے برسر پیکار ہیں تاکہ ملک کے محصور علاقوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔ ان علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں عام شہری محصور ہیں اور کئی ماہ سے انہیں باہر سے امداد کی ترسیل نہیں ہو رہی ہے اور انہیں خوراک اور ادویہ کی شدید کمی کا سامنا ہے۔