واشنگٹن (جیوڈیسک) صیدنایا جیل میں مبینہ طور پر حکام کی طرف سے تشدد، قیدیوں کو بھوکا پیاسا رکھنے اور طبی امداد نہ دینے کی وجہ سے بھی بڑی تعداد میں قیدی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی موقر بین الاقوامی تنظیم “ایمنسٹی انٹرنیشنل” نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ شام میں صیدنایا کی جیل میں گزشتہ سالوں کے دوران ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔
منگل کو جاری کی گئی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ دارالحکومت دمشق سے 30 کلومیٹر دور واقع اس جیل میں قیدیوں کو سزائے موت دیے جانے کا سلسلہ معمول بن چکا ہے اور 2011ء سے 2015ء کے درمیان صیدنایا جیل میں پانچ ہزار سے 13 ہزار تک کی تعداد میں لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں۔
48 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کی تیاری میں 84 عینی شاہدین بشمول صیدنایا جیل کے سابق محافظوں، حکام، قیدیوں، ججوں اور وکلا کے علاوہ شام میں قید خانوں سے متعلق مقامی اور بین الاقوامی ماہرین سے معلومات حاصل کی گئیں۔
“انسانی ذبح خانہ: صیدنایا جیل میں بڑے پیمانے پر پھانسیاں اور قتل” کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ جس سے تنظیم اس بات پر یقین کر لے کہ یہاں پھانسیوں کا سلسلہ روک دیا گیا ہے اور محققین کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس جیل کی صورتحال سے متعلق تنظیم کی یہ دوسری رپورٹ ہے۔ اس سے قبل اگست 2016ء میں یونیورسٹی آف لندن کے اشتراک سے تیار کی گئی رپورٹ میں بھی شامی حکومت کا مبینہ ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہونے کا بتایا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام کی حکومت سے اس رپورٹ پر ردعمل کے لیے رابطہ کیا لیکن اسے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ وائس آف امریکہ کی طرف سے شامی وزارت خارجہ کو کی گئی ای میل کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس جیل میں ڈاکٹر، وکیل، انجینیئرز اور انسانی حقوق کے کارکنان بھی شامل ہیں۔
مزید برآں پھانسیوں کے علاوہ صیدنایا جیل میں مبینہ طور پر حکام کی طرف سے تشدد، قیدیوں کو بھوکا پیاسا رکھنے اور طبی امداد نہ دینے کی وجہ سے بھی بڑی تعداد میں قیدی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔