ہالینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں ترکی کی جاری فوجی کارروائی پر عالمی برادری کی طرف سے شدید رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ فرانس ، برطانیہ ، جرمنی ، اٹلی ، بیلجیئم ، پولینڈ اور ہالینڈ نے بدھ کے روز شمال مشرقی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ترک فوجی آپریشن کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
ہالینڈ کے وزیر خارجہ اسٹیو بلاک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انقرہ نے شام میں آپریشن شروع کرنے کے بعد ترکی کے سفیر کو طلب کرکے ان سے سخت احتجاج کیا ہے۔
اسٹیو بلاک نے ایک بیان میں کہا ان کے ملک نے شمال مشرقی شام پر ترک حملے کی مذمت کی ہے۔ ہم ترکی سے شام میں جاری جارحانہ مہم جوئی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شام میں ترکی کی فوجی کارروائی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ صدر اور جنوبی افریقہ کے سفیر جیری میتھیوز ماتجیلا سے ترکی سے “شہریوں کی جان ومال حفاظت” یقینی بنانے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت پر زرو دیا۔
اکتوبر کے مہینے کے لیے کونسل کے صدر نے اس امید کا اظہار کیا کہ جلد از جلد سلامتی کونسل کا اجلاس ہوگا۔ انہوں نے شام میں ترکی کی فوجی کارروائی روکنے کے لیے مختلف ممالک کو قرارداد کا مسودہ تیار کرنے کی بھی دعوت دی۔
یوروپی یونین کے صدر ژاں کلود جنکر نے ترکی سے شام میں اپنی کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا اور انقرہ کو بتایا کہ یورپی یونین شمالی شام میں نام نہاد “سیف زون” کے لیے رقوم نہیں دے گا۔
جنکر نے یورپی پارلیمنٹ کو بتایا کہ ترکی اور دیگر گروپوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ تحمل سےکام لیں اور ایک دوسرے پرحملے بند کریں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شہریوں اور سویلین کو نشانہ بنانے کے خلاف انتباہ کیا ہے۔
فرانس نے شمالی شام پر ترک حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھایا ہے۔
یوروپی امور کے وزیر مملکت ایملی ڈی مونچالان نے کہا شمالی شام میں ترک فوجی آپریشن کے آغاز کے چند منٹ بعد فرانس نےاس آپریشن کی “پر زور انداز” مذمت کی ہے اور ہم نے اس معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کامطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے قومی اسمبلی کی امور خارجہ کمیٹی کو بتایا کہ فرانس ، جرمنی اور برطانیہ ایک مشترکہ اعلامیہ کو حتمی شکل دے رہے ہیں جس میں ترکی کو واضح پیغام دیاجائے گا کہ وہ شام میں جاری مہم جوئی بند کرے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ کے اعلان کے مطابق ، جرمنی نے شمالی شام میں ترک حملے کی شدید مذمت کی کرتے ہوئے فوجی کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں ترکی کی کارروائی خطے میں مزید انتشار کا باعث بنے گی اور داعش کی موجودگی کو تقویت ملے گی۔
اٹلی نے فرانس اور جرمنی کے بیانات کی حمایت کرتے ہوئے شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کو فوری بند کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بدھ کو شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’’ترکی کی مسلح افواج اور شامی قومی فوج ( جیش الحر) نے شام کے شمال میں ’آپریشن امن بہار‘ کا آغاز کردیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’اس فوجی کارروائی میں شمالی شام میں کرد جنگجوؤں اور داعش کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ہمارے مشن کا مقصد ہماری جنوبی سرحد پر دہشت گردی کی راہداری کو قائم ہونے سے روکنا اور علاقے میں امن کا قیام ہے۔‘‘
ترکی کے ایک سکیورٹی عہدہ دار نے کہا ہے کہ فضائی حملوں سے اس آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے اور توپ خانے سے اس کی مدد کی جائے گی۔
دوسری جانب شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے ترجمان مصطفیٰ بالی نے کہا ہے کہ ’’ترکی کے لڑاکا طیاروں نے شہری علاقوں پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔‘‘
شام کے سرکاری میڈیا اور ایک کرد عہدہ دار نے الگ سے یہ اطلاع دی ہے کہ فضائی بمباری میں ترکی کی سرحد کے ساتھ شام کے شمال مشرق میں واقع قصبے راس العین کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔