شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں انسانی امداد فراہم کرنے کی معیاد آج ہفتے کے روز ختم ہو رہی تھی لیکن اب یہ آئندہ مزید ایک برس تک جاری رہے گی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے نو جولائی جمعے کے روز ترکی سے سرحد پار شام میں امداد کی فراہمی میں مزید 12 ماہ کے لیے توسیع پر اتفاق کر لیا۔ امداد کی فراہمی اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی وجہ سے ہی بحال تھی تاہم یہ معیاد آج 10 جولائی ہفتے کو ختم ہو رہی تھی۔
اقوام متحدہ میں ویٹو پاور سے لیس مستقل رکن روس پہلے اس توسیع کی مخالفت کر رہا تھا تاہم آخری منٹ میں روس کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے پا گیا جس کے سبب 12 ماہ کے لیے یہ توسیع ممکن ہو سکی۔ سلامتی کونسل نے سب سے پہلے سن 2014 میں امداد کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم یہ مینڈیٹ ہر برس تجدید سے مشروط ہے۔
روس جنگ زدہ ملک شام کے صدر بشار الاسد کا حامی اور ان کا اتحادی ہے، جس نے حال ہی میں سلامتی کونسل میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ذریعہ ملک میں خوراک اور طبی سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی چار سرحدی گزر گاہوں میں سے تین کو بند کروا دیا تھا۔
جمعے کے روز سکیورٹی کونسل میں اتفاق رائے سے ہونے والے ووٹ سے قبل، روس نے شام کے شمال مغربی علاقے باب الھویٰ میں بھی آخری سرحدی کراسنگ کو بند کرنے کی بات کہی تھی۔ تاہم مبصرین نے متنبہ کیا ہے کہ اس سرحدی گزر گاہ کو بند کرنے سے انسانیت سوز تباہی ہو سکتی ہے۔
جمعے کو ووٹ سے قبل سکیورٹی کونسل میں اس حوالے سے دو قراردادیں پیش کی گئی تھیں۔ ناروے اور آئر لینڈ نے مشترکہ طور پر اس میں پھر سے 12 ماہ کی توسیع کا مطالبہ کیا تھا جبکہ روس نے اپنی قرار داد میں محض چھ ماہ کی توسیع کی بات کہی تھی۔ لیکن روس کا اصرار اس بات پر تھا کہ کسی بھی قسم کی امداد پہلے دارالحکومت دمشق بھیجی جانی چاہیے اور پھر اس کی تقسیم کا کام صدر بشار الاسد کی انتظامیہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
لیکن اقوام متحدہ اور دیگر فریقوں نے روس کی اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اگر اسد حکومت کو باغیوں کے آخری گڑھ ادلب میں بھی امداد پہنچانے کا اختیار دے دیا گیا تو اس سے خطے کے تقریباً 20 لاکھ سے بھی زیادہ بے گھر ہونے والے شامی باشندے اسد جیسے طاقتور آمر کی خواہش سے مشروط ہو کر رہ جائیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (ایچ آر ڈبلیو) میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر لوئس شارین بونیو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’شامی حکومت نے بار بار یہی ظاہر کیا ہے کہ اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو دیگر خطوں تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے برعکس، انہوں نے ہر بار اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق ترکی میں پہلے ہی سے 36 لاکھ سے بھی زیادہ شامی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔ سن 2011 میں ملک میں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک تقریباً سوا دو کروڑ شامی باشندے بے گھر ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں کام کرنے والی ایک شامی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ اب تک شام میں چار لاکھ 94 ہزار 438 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔