واشنگٹن (جیوڈیسک) شام میں جنگ بندی کے لیے یورپ میں جاری سفارتی کوششیں زور پکڑ گئی ہیں اور امریکہ اور روس کے اعلیٰ حکام کے درمیان اس سلسلے میں مزید رابطے ہوئے ہیں۔
امریکی سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ روس اور امریکہ کے سفارتی حکام کے درمیان گزشتہ کئی ہفتوں سےبات چیت کا سلسلہ جاری ہے جس کا مقصد شام میں جنگ بندی سے متعلق مجوزہ معاہدے پر موجود تیکنیکی نوعیت کے اختلافات طے کرنا ہے۔
امریکی سفارتی اہلکاروں نے بات چیت میں شریک روسی حکام پر چند اہم معاملات سے متعلق اپنا موقف آخری لمحات میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے جس کے باعث ان کے بقول جنگ بندی کا معاہدہ کھٹائی میں پڑگیا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع ایش کارٹر نے – جو ان دنوں برطانیہ کے دورے پر ہیں – بات چیت میں آنے والے اس تعطل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی صورتِ حال میں بہتری روس کے فیصلے پر منحصر ہے۔
بدھ کو برطانیہ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے ایش کارٹر نے کہا کہ شام سے آنے والی خبریں حوصلہ افزا نہیں لیکن شام سے متعلق فیصلہ روس نے کرنا ہے جس کے نتائج کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔
اوباما انتظامیہ کےا یک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ جان کیری آئندہ چند روز کے دوران اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کریں گے جس میں معاہدے کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
اطلاعات ہیں کہ جنگ بندی کا مجوزہ سمجھوتہ پیر کو صدر براک اوباما اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی زیرِ غور آیا تھا۔ دونوں صدور کے درمیان یہ ملاقات چین کے شہر ہانگ ژو میں ہونے والے ‘جی-20’ سربراہی اجلاس کے دوران ہوئی تھی جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی تھی۔
لیکن شامی حزبِ اختلاف کے نمائندہ گروپ کے اعلیٰ مذاکرات کار ریاض حجاب نے واضح کیا ہے کہ اگر روس اور امریکہ نے کوئی ایسا معاہدہ کیا جو شامی عوام کی توقعات کے برخلاف ہوا تو وہ اسے تسلیم نہیں کریں گے۔
اطلاعات ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر سب سے بڑا اختلاف شامی صدر بشار الاسد کے مستقبل پر ہے۔ امریکہ اور شامی حزبِ اختلاف صدر اسد کی اقتدار سے فوری بے دخلی کے خواہش مند ہیں جب کہ روس اور شامی حکومت کا سب سے بڑا علاقائی اتحادی ایران صدر اسد کو اقتدار میں رکھنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف لندن میں برطانیہ کے وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے شامی حزبِ اختلاف کے نمائندوں کو ملاقات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ شام میں انتقالِ اقتدار کی تجویز قابلِ عمل ہے۔