واشنگٹن (جیوڈیسک) شام جنگ بندی کے معاملے پر متعدد کلیدی سفارت کاروں نے برجستہ کہا ہے کہ یہ ابھی یہ ختم نہیں ہوئی، ایسے میں جب پیر کو امدادی قافلے پر حملہ ہو چکا ہے۔
بیس رکنی ممالک اور شام کے بین الاقوامی حمایت والے گروپ کی تنظیموں نے منگل کے روز نیو یارک میں تقریباً ایک گھنٹے تک ملاقات کی اور فیصلہ کیا کہ جمعے کے روز اُس کا پھر اجلاس ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے احاطے سے باہر ایک اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے شام جنگ بندی کے سمجھوتے کو باقی رکھنا ہے، جس سے ایک ہی روز قبل حلب کے قریب مہلک فضائی حملہ ہوچکا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’’19 رکنی شام کی حمایت والا بین الاقوامی گروپ اِس بات پر رضامند ہے کہ پُرتشدد کارروائی کے باوجود ملک بھر میں مخاصمت کی کارروائیاں بند رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ امریکہ اور روس کی جانب سے گذشتہ ہفتے جنیوا میں ہونے والے بندوبست کو جاری رکھا جا سکے۔‘‘
حلب کے قریب ایک مشترکہ امدادی قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں کم از کم 20 شہری، جن میں کم از کم ایک شامی امدادی کارکن شامل ہے، ہلاک ہوچکے ہیں۔
ترجمان، جان کِربی نے کہا ہے کہ ’’سکریٹری کیری نے کل اِن فضائی حملوں کی مذمت کی جن میں امدادی کارکن ہلاک ہوئے جو حلب کے زیر محاصرہ علاقوں میں خوراک، پانی اور ادویات تقسیم کر رہے تھے۔ اُنھوں نے اور دیگر وزراٴ نے بے گناہ جان چلے جانے پر تعزیت کا اظہار کیا اور اس شدید ضرورت پر زور دیا کہ انسانی ہمدری کے بنیاد پر رسد پہنچانے کے لیے بے روک ٹوک، محفوظ اور متواتر فوری رسائی قائم کی جاسکے‘‘۔
روسی وزارتِ دفاع نے منگل کے روز تردید کی ہے کہ اس حملے میں روسی اور شامی فضائی افواج ملوث تھیں۔ شام کے فوجی اہل کاروں نے منگل کے روز ریاستی تحویل میں کام کرنے والے ٹیلی ویژن پر اِس بات کی تردید کی کہ اُن کی افواج نے قافلے کو نشانہ بنایا۔
پینٹاگان نے پیر کے روز بتایا تھا کہ امریکی قیادت والا اتحاد حملے میں ملوث نہیں تھا، اور ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا ہے کہ دیگر دو امکانات ہو سکتے ہیں، جس میں اُن کا اشارہ شام اور روس کی جانب تھا۔