تحریر : محمد عرفان چودھری شامی مسلمانوں مجھے معاف کرنا جو میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا کیا کروں میرے حکمرانوں کو روزی روٹی کے چکر میں وقت ہی نہیں ملتا کہ تمہاری طرف دیکھ سکے آج کل الیکشن کا دور بھی چل رہا ہے تمہارے چکر میں کہیں سلیکشن سے ہی نا رہ جائے اس لئے جہاں اپنے اتنے مسلمان ناجائز جنگ میں شہید ہو چکے ہیں وہاں تھوڑے سے اور شہید کروا لو تم تو یونہی دل چھوڑ بیٹھے ہو کشمیری مسلمانوں کو ہی دیکھ لوستر سال ہو چکے ہیں لڑ رہے ہیں مر رہے ہیں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے کشمیر بنے گا پاکستان اے شامی مسلمانوں میرے بھائیو ذرا انتظار رکھو جولائی آ رہا ہے مجھے امید ہے الیکشن ہوتے ہی حکمران ایکشن کریں گے اقوام متحدہ سے منتیں کر یں گے کہ وہ تم پر مسلط جنگ کے بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کریں اصل میں وہ ایک دم سے بھی اقوام متحدہ کے سامنے احتجاج ریکارڈ نہیں کروا سکتے کہ کہیں وہ بُرا مان کر میری امداد بند نا کر دیں۔
بھٹو تو پاگل تھا جو اقوام متحدہ میں کشمیر کی آزادی پر اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران سینہ ٹھوک کر کہہ آیا تھا کہ کشمیر پاکستان کی حصہ ہے اور بعد میں تم نے بھی دیکھا کہ اس کا کیا حال ہوا؟ میرے آج کے سیاست دان ذرا مختلف ہیں ان کے آبائو اجداد نے قربانیاں دے کر مجھے دشمنوں سے لیا تھا اور یہ اُن کا فرض عین ہے کہ وہ اپنے اجد کی قربانیاں رائیگاں نا جانے دیں جو انہوں نے پاکستان کا بیج بویا تھا وہ پاکستان اب تناور درخت بن چکا ہے اب اُس پر پھل لگتے ہیںاُنہیں وہ کھا لینے دو پھر دیکھنا تم وہ تمہارے لئے موم بتیاں روشن کریں گے احتجاج ریکارڈ کروائیں گے اصل میں بات یہ بھی ہے کہ ان نکمے حکمرانوں کی بدولت ان کے سیاسی آقا بڑی مضبوط قوم بن چکے ہیں تم نے دیکھا نہیں کہ انکل سام (امریکہ) نے تمہارے بھائیوں کے ملک افغانستان میں بموں کی ماں کو گرادیا تھا جس سے کئی افراد موت کے منہ میں چلے گئے درجنوں زخمی ہونے کے بعد اپاہجوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
انکل سام کریں بھی تو کیا کریں اب وہ ٹھہرے پوری دنیا کے ٹھیکیدار اور جس ملک میں چاہیں وہاں تباہی کروا دیں اور اُنہیں کوئی روکے بھی نہیں روکے بھی تو کیسے ڈالر کس کو پیارے نہیں لگتے؟ مجھے معاف کرنا کہ میں تو خود اِن ضمیر فروش حکمرانوں کی بدولت انکل سام کا مقروض ہوں میری آنے والی نسلیں بھی مقروض ہیں مگر تم فکر نہ کرو مجھے اپنے پائوں پر کھڑا ہو لینے دو مجھ میں عمر فاروق جیسا حکمران آ لینے دوپھر دیکھنا جب میں پھر سے تناور درخت بنوں گا پھر سے مجھ پر پھل لگیں گے اور وہ پھل بیچ کر میں انکل سام کا سارا قرض اتار دوں گا اور پھر تمہارے لئے میں انکل سام سے بات کروں گا کہ انکل سام اب شامی مسلمانوں کے گھر سے نکل جائو اسرائیل سے دو ٹوک بات ہو گی۔
روس کو سمجھائوں گا کہ اب بہت ہو گیا ۔ میرے عزیز شامی بھائیو بس ذرا انتظارکر لو تم تو جذباتی ہی ہو گئے ہو کیا تم نہیں دیکھتے تمہارے بھائی فلسطین پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور برما میں تمہارے بھائیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا تم اس سے بھی بخوبی واقف ہو مانا کہ انکل سام بڑا چالاک ہے وہ اپنی بغل میں دہشت گرد چھپا کے لے جاتا ہے پھر مسلمانوں کے ملکوں میں پھیلا کر واویلا کرتا ہے کہ اس ملک میں دہشت گرد ہیں جو پوری دنیا کے لئے خطرناک ہیں اسی بات کو لے کر وہ تم لوگوں کے دیس میں بم پھینکتا ہے پھر تعمیر نو کا بہانہ بنا کر وہاں اپنے ایجنٹ چھوڑ دیتا ہے تا کہ تمہاری پل پل کی خبر لیتا رہے مگر میںاس وقت کچھ نہیں کر سکتا بھلے اسرائیل چھوٹا سا ہے مگر اس کی دہشت تو ہے تم سعودی عرب کو دیکھ لو جس کو تم اپنا مرکز مانتے ہو کیا کبھی اس نے تمہاری جنگ میں جو کہ تمہاری نہیں ہے اس میں تمہاری مدد کی؟ نہیں کی نا کیسے کرے اُسے سجدے سے سر اُٹھانے میں فرصت ملے تو وہ تمہارے لئے بات کرے آخر میں بڑا بھائی ہونے کے ناطے صرف یہی تم کو سمجھانا چاہوں گا کہ جیسے کشمیر، فلسطین، افغانستان، برما اور عراق والے چپ چاپ ظلم برداشت کر رہے ہیں تم بھی کرتے جائو اور دعا کرو کے مجھ میں اچھے حکمران آ جائیں جو میرے نظریات کو سمجھ سکیں جو میرے اندر سموئی قیمتی دھاتوں کا میری عوام کے لئے استعمال کر سکیں میں ایٹمی طاقت تو بن گیا ہوں مگر بہادر سپہ سالار نہ ہونے کی وجہ سے بے بس ہوں بس ایسا حکمران آ جائے جو سارے میزائل انکل سام اور اسرائیل کی جانب موڑ دیں پھر دیکھنا کشمیر بھی آزاد ہو گا ، فلسطین بھی اور تم بھی سکھ کا سانس لو گے بس ذرا انتظار اور کر لو۔