امریکا (جیوڈیسک) کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا معاملہ حل نہ ہوا تو شام کے خلاف فوجی کارروائی خارج ازامکان نہیں ہے۔ دوسری جانب روس کے صدر پوٹن نے کھلا خط لکھ کر امریکی ہم منصب کو سمجھانے کی کوشش ہے کہ مشرق وسطی کو ایک اور جنگ میں دھکیلنے سے باز رہیں۔ امریکا اور روس کے درمیان شام کے معاملے پر اختلافات کیری لاروف ملاقات بھی ختم نہ کرسکی۔
جنیوا میں ہوئی بات چیت کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے جان کیری نے کہا کہ انہوں نے ہم منصب سرگئی لاروف پرواضح کر دیا ہے کہ یہ کھیل نہیں حقیقت ہے۔ روس کے صدر پوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما کو بھی سمجھانے کے لیے کھلا خط لکھا ہے کہ مسئلہ کاحل سفارتکاری سے تلاش نہ کیا گیا تو القاعدہ کو دنیا بھر میں حملوں کا موقع ملے گا۔ سفارتکاری کی باتیں اپنی جگہ، روس جانتا ہے۔
کہ امریکا جنگ کرکے ہی رہے گااور یہی وجہ ہے کہ ماسکو نے اپنا جنگی جہاز شام کی مدد کیلئے یوکرائن سے روانہ کر دیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ مسئلہ کا حل شام پر حملے کو غیر ضروری بنا دیگا اور انہیں توقع ہے کہ صدر اوباما بھی مسئلہ کے پرامن حل پریقین رکھتے ہیں۔ باغیوں کے بھیس میں القاعدہ کا سامنا کرنے والے شام کا کہنا ہے کہ وہ مسئلہ کا پرامن حل چاہتا ہے۔
اور وہ کیمیائی ہتھیاروں پر عالمی پابندی کے معاہدے پر دستخط پر تیار ہے۔ دمشق نے اس بارے میں اقوام متحدہ کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔ صدر بشارالاسد نے کہا کہ معاہدے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ شام دستاویز پر دستخط کر دیگا اور شرائط پر عمل کریگا، یہ دوطرفہ عمل ہونا چاہیے۔ امریکا کو بھی دھمکی آمیزلہجہ ختم کرنا ہوگا۔ صدر اوباما نے بظاہر امید ظاہر کی ہے کہ کیری لاروف ملاقات نتیجہ خیزہوگی تاہم روسی حکام کہتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ اوباما کو جنگ میں دھکیل جارج بش بناکر رہے گی اور پوٹن اگر امریکا کو اس جنگ سے باز رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو امن کے نوبیل انعام کے حقدار ٹہریں گے۔