شام (اصل میڈیا ڈیسک) شامی حکومت کے فوجی دستوں نے شمالی شام کے کرد علاقوں میں ترکی کے ساتھ ملکی سرحد پر اپنی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ اب یہ تشویش بھی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے کہ اس تنازعے میں شاید نیٹو اتحاد کو بھی ملوث ہونا پڑ جائے۔
شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق دمشق میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے مسلح دستے ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب زیادہ تر کرد آبادی والے ان علاقوں میں پہنچ گئے ہیں، جن میں تل تمر، الرقہ کے قریب طبقہ، عین عیسیٰ اور دیگر چھوٹے شہر بھی شامل ہیں۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق جب اسد حکومت کے دستے ان کرد سرحدی علاقوں میں پہنچے تو مقامی باشندوں نے ان کا پھولوں سے استقبال کیا اور وہ ‘مرگ بر ایردوآن‘ یا ‘ایردوآن کے لیے موت‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
شامی کردوں کے سرکردہ رہنما بدران جیا کرد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ شامی حکومت کے یہ مسلح دستے منبج سے لے کر دیرک تک شمالی شام کے تمام سرحدی شہروں میں اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں گے۔
ساتھ ہی اس شامی کرد لیڈر نے یہ بھی کہا، ”ان سرکاری فوجی دستوں کی آمد (شامی کردوں اور دمشق حکومت کے مابین) ایک عبوری عسکری اتفاق رائے کا نتیجہ ہے۔ فی الحال اس فیصلے کے سیاسی پہلوؤں پر کوئی بات نہیں کی گئی کیونکہ اس پہلو پر بحث بعد میں کی جائے گی۔‘‘
شمالی شام میں داخل ہو کر ترک فوجی دستے جن کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف گزشتہ بدھ کے دن سے کارروائیوں میں مصروف ہیں، وہ کئی مسلح کرد گروہوں کا ایک ایسا اتحاد ہے، جو سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف)کہلاتا ہے۔ اس ملیشیا اتحاد کی قیادت وائی پی جی نامی وہ کرد ملیشیا کرتی ہے، جسے ترکی میں ممنوعہ کرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) ہی کا عسکری بازو قرار دیتے ہوئے انقرہ حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی کے کے کی طرح وائی پی جی بھی ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
شامی کردوں کے ایک اور رہنما نے روئٹرز کو بتایا کہ شمالی شام میں جس طرح امریکا نے اپنے فوجی دستے وہاں سے پیچھے ہٹا کر ترک مسلح دستوں کی طرف سے فضائی حملوں اور زمینی آپریشن کی راہ ہموار کر دی تھی، اس کے بعد شامی کرد بہت مجبور ہو گئے تھے۔
ایس ڈی ایف کے اس رہنما نے کہا، ”ہمیں مجبور کر دیا گیا تھا۔ ہمارے پاس اور کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ اسی لیے ہم نے ترک فوجی دستوں کی کارروائی کے خلاف اپنی عسکری مزاحمت کے عمل میں شامی حکومت اور روس کے ساتھ مکالمت کی راہ اختیار کی۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے، جو شمالی شام میں انقرہ کے فوجی دستوں کے مسلح آپریشن کو بین الاقوامی تنقید کے باوجود روکنے پر تیار نہیں ہیں، زور دے کر کہا ہے کہ ان کی شمالی شام میں اس فوجی پیش قدمی کے حوالے سے سوچ بہت واضح ہے۔
صدر ایردوآن نے کہا کہ وہ اس بات کا تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ شمالی شامی شہر منبج کو کارروائی کر کے خالی کرا لیا جائے گا اور پھر وہاں ایک محفوظ علاقہ قائم کر کے دو ملین تک شامی عرب مہاجرین کو آباد کیا جائے گا۔ یہ دو ملین شامی عرب مہاجرین ان قریب ساڑھے تین ملین شامی شہریوں میں سے ہوں گے، جو اپنے وطن میں خانہ جنگی سے فرار ہو کر گزشتہ کئی برسوں سے ترکی میں پناہ گزین ہیں۔
ترک صدر ایردوآن نے، جن کا ملک مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن بھی ہے، اس بین الاقوامی عسکری اتحاد پر الزام لگایا ہے کہ وہ ترکی کی کافی مدد نہیں کر رہا۔ ادھر یورپی یونین میں خاص طور پر اس وجہ سے تشویش پائی جاتی ہے کہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی مداخلت کا معاملہ عسکری طور پر پھیل کر ایک بڑا تنازعہ بھی بن سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نیٹو کا کوئی بھی رکن ملک خود کو محسوس ہونے والے کسی بھی عسکری خطرے یا خطرات کی وجہ سے اپنے لیے اس اتحاد سے مدد طلب کر سکتا ہے۔ اس لیے ممکنہ طور پر نیٹو کو اس تنازعے میں اس وقت مداخلت کرنا پڑ سکتی ہے، جب موجودہ صورت حال مزید خراب ہو کر نیٹو کے رکن ملک ترکی اور شام کے مابین ایک باقاعدہ تنازعہ بن جائے۔
شمالی شام میں جاری لڑائی اور وہاں ترک فوج کی کارروائیوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر آج پیر چودہ اکتوبر کے روز یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں تفصیلی بحث کی گئی۔ اس اجلاس کے بعد لکسمبرگ کے وزیر خارجہ ژاں آسلبورن نے بتایا کہ یونین کی رکن ریاستوں کے مابین اس بارے میں اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ نیٹو کا رکن ملک ہونے کے باوجود فی الحال ترکی کو مزید کوئی یورپی اسلحہ مہیا نہیں کیا جائے گا۔
ساتھ ہی لکسمبرگ کے وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ یورپی وزرائے خارجہ کے اس اجلاس میں شام میں ترک فوجی آپریشن کی متفقہ طور پر مذمت بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ شمالی شام میں ترک فوجی دستوں کا مسلح کارروائیوں کے لیے داخل ہو جانا ایک ‘فوجی یلغار‘ ہے، جسے بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی طور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔