شام (جیوڈیسک) عراق میں فلوجہ اور رمادی سے پسپائی سے برعکس داعش منبج میں پسپا تو ہو رہا ہے لیکن وہ نئی کمک بھی حاصل کر رہا ہے جس سے شہر کے وسط تک پہنچنا دشوار ہو رہا ہے۔
شام میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں نے منبج شہر کے آدھے حصے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔
امریکہ کی زیرقیادت داعش مخالف اتحاد کے ترجمان کرنل کرس گارور نے بغداد سے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے جمعہ کو پینٹاگان میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکی حمایت یافتہ سریئن عرب اتحاد کے جنگجو منبج کے مغربی حصے کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور شہر کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عراق میں فلوجہ اور رمادی سے پسپائی سے برعکس داعش منبج میں پسپا تو ہو رہا ہے لیکن وہ نئی کمک بھی حاصل کر رہا ہے جس سے شہر کے وسط تک پہنچنا دشوار ہو رہا ہے۔
گارور نے کہا کہ “یہ ایسی لڑائی ہے جو اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی تھی۔” جمعرات کو منبج کونسل کہلانے والے سریئن عرب اتحاد کے ایک حصے نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں داعش کے جنگجوؤں کو بغیر کسی مزاحمت کے 48 گھنٹوں میں علاقہ چھوڑنے کی مہلت دی گئی تھی۔
امریکی زیر قیادت اتحاد کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک سریئن عرب اتحاد کی معاونت کے لیے منبج کے قریب 500 سے زائد فضائی کارروائیاں کی ہیں۔ منبج میں یہ فوجی کامیابی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ اتحادی فضائی کارروائیوں میں سے ایک میں رواں ہفتے درجنوں شہری مارے گئے۔
کرنل کرس گارور کا کہنا تھا کہ سریئن عرب اتحاد نے دیکھا کہ داعش کے مسلح جنگجوؤں کا ایک قافلہ ہے جو “بظاہر اتحاد پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے”، اور اس سے امریکی اتحادیوں سے داعش کی عمارتوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنانے کی درخواست کی۔
ان کے بقول امریکی زیر قیادت اتحاد کی فضائی کارروائی کے بعد ایسی اطلاعات موصول ہوئی کہ علاقے میں عام شہری بھی تھے۔