واشنگٹن (جیوڈیسک) فائونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز سے وابستہ تجزیہ کار ڈیوویڈ گارٹن اسٹائن نے کہا کہ شامی حکومت کو ماسکو اور تہران کا مسلسل تعاون حاصل ہے جبکہ متعدد جہادی گروہوں کے ارکان بھی شام میں میدان جنگ کا رخ کرتے جا رہے ہیں جس کے بعد امکان ہے کہ یہ تنازع ممکنہ طور پر آئندہ ایک دہائی تک جاری رہ سکتا ہے۔
تجزیہ کار ڈیوویڈ گارٹن اسٹائن نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال پہلے کی ایسی پیشن گوئیاں کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کچھ ہی ماہ کی ہے، غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِس وقت امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی جس طرح کی صورتحال کا تجزیہ کرتی ہے اس کے تحت یہ خانہ جنگی آئندہ ایک دہائی تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔
گارٹن اسٹائن نے شام کے حوالے سے امریکی پالیسی کو ’الجھن کی شکار‘ اور کسی واضح حتمی نتائج سے قاصر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شامی جنگ ایک بڑا سانحہ ہے اور ممکنہ طور پر اِس کا اختتام بھی سانحہ خیز ہو سکتا ہے۔
امریکا ممکنہ طور پر اِسے تبدیل نہیں کر سکتا خواہ وہ اِس تنازع میں اور زیادہ کردار ادا کرے۔ ادھر شامی تنازع کے حل کے لیے جنیوا امن مذاکرات کے دو ادوار بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو چکے ہیں اور تاحال تیسرے دور کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
اِسی دوران دمشق انتظامیہ کے لیے روس اور ایران کی جانب سے ہتھیاروں اور مالی امداد سے صدر اسد کی پوزیشن تو خاصی مستحکم ہوتی چلی جا رہی ہے البتہ شامی تنازع میں جہادیوں کے بڑھتے ہوئے کردار کے سبب مغربی ممالک اعتدال پسند اپوزیشن کی کھل کر حمایت نہیں کر پا رہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ’واشنگٹن انسٹیٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی‘ کے ایک تجزیہ کار میتھیو لیوٹ نے کہا کہ شامی جنگ میں غیر ملکی جنگجوئوں کی شمولیت سے عالمی طور پر بھی حقیقی خطرات لاحق ہیں کیونکہ اِن انتہا پسند جنگجوئوں کی اکثریت پہلے اپنے ملک و خطے میں جا کر وہاں حملے کرے گی اور پھر یورپ اور امریکا میں اپنی کارروائیاں کرے گی۔
لیوٹ نے مزید کہا کہ اگرچہ جنگ کے حوالے سے کسی نہ کسی سطح پر مذاکرات یا سمجھوتے کا امکان ہے تاہم شام میں ’فرقہ واریت‘ میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔