واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ صوبہ ادلب پر حملے سے باز رہے۔ دمشق حکومت اس جنوب مغربی صوبے پر حملے کی تیاری کر رہی ہے جو ملک میں باغیوں کا آخری گڑھ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر تین اگست کو اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد کو متنبہ کیا کہ وہ باغیوں کے زیر قبضہ صوبہ ادلب پر ’’سفاکانہ حملے‘‘ سے باز رہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایسا کوئی حملہ ’’انسانی المیے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔
دمشق حکومت صوبہ ادلب پر حکومتی عملداری قائم کرنے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہی ہے۔ ملک کے جنوب مغرب میں واقع یہ صوبہ اُن باغیوں کا آخری مضبوط گڑھ ہے جو اسد حکومت کے خلاف گزشتہ سات برسوں سے برسرپیکار ہيں۔ شامی حکومتی فورسز اور اس کے حامی جنگجو اس صوبے کی ناکہ بندی کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔
ٹرمپ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آيا جب گزشتہ روز ہی ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دمشق میں اپنے شامی ہم منصب ولید المعلم سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ دہشت گردوں کا علاقے سے خاتمہ ضروری ہے۔ اس موقع پر شامی صدر بشار الاسد اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ممالک پر ’’مغربی دباؤ‘‘ کے حوالے سے بھی بات چیت کی جس کا بظاہر اشارہ امریکا کی جانب سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں کی طرف ہے۔
دوسری طرف ایران، ترکی اور روس کے سربراہان رواں ہفتے ہی ایران میں ایک ملاقات کر رہے ہیں جس میں خاص طور پر ادلب کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ روس اور ایران دونوں ہی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ صوبہ ادلب میں موجود عسکریت پسند گروپوں کو شکست دیا جانا ضروری ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اگر شام ادلب میں فوجی کارروائی کرتا ہے تو روس اور ایران اس کا ساتھ دیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے دمشق میں اپنے شامی ہم منصب ولید المعلم سے ملاقات کے بعد کہا کہ دہشت گردوں کا علاقے سے خاتمہ ضروری ہے۔
شامی صوبہ ادلب کی آبادی 30 لاکھ سے زائد ہے۔ شام بھر میں حکومتی فورسز کی کارروائیوں کے دوران ہزارہا شامیوں نے صوبہ ادلب میں پناہ لی تھی۔
اقوام متحدہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے کہا گیا تھا کہ اگر ادلب میں فوجی آپریشن شروع کیا جاتا ہے تو وہاں سویلین آبادی کے لیے شدید خطرات پیدا ہو جائیں گے اور اس علاقے سے آٹھ لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔