تحریر : راشد علی سیاسی، جغرافیائی، تزویراتی جمع تفریق سے بالاتر ہر جنگ کی ایک انسانی قیمت ہوتی ہے۔ شام میں2011 ء کے اوائل سے شروع ہونے والی خوں ریز خانہ جنگی اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ انسانی جانوں کو نگل چکی ہے۔ 2011ء میں شام کی آبادی2 ء 2کروڑ تھی۔ کِشت و خون کے ساڑھے چھ سال بعد منظر یہ ہے کہپونے دوکروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جبکہپچاس لاکھ سے زیادہ شامی باشندے اپنی سرزمین چھوڑ کر جاچکے ہیں۔شامی جنگ میں تاریخ کا بدترین ظلم کیا گیا مذہبی انتہاپسندی اوربین الاقوامی رسہ کشی کی وجہ سے لاکھوں بے گھر اورلاکھوں اپنی جانیں گنوابیٹھے مگر جنگ کب ختم ہوگی یہ کہنا قبل ازوقت ہے ایران اورروس کے حمایت یافتہ ہٹلر اسد نے انسانی جانوں سے کھلواڑکیا ناکام سعودی حکمت عملی اور امریکی منافقانہ پالیسی کی وجہ سے شامی جنگ طوالت کا باعث بنی کہا جارہا ہے کہ موجودہ بحران کے پُرامن حل کے لیے جامع منصوبہ متعدد مرتبہ ناکام ہوگیا ہے اسد باغی حکومت اورایران نے جنیوا کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی دنیا ان کی خواہشات کے مطابق شام کی قسمت کا فیصلہ نہیں کررہی ہے ایران نے شام میں اپنی فوجی موجودگی اورحزب کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ صورت حال کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشاں ہے اور مابعد جنگ وہ اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے بلکہ اس کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔اگر اس طرح کا کردار جاری رکھا جاتا ہے تو متحارب فریق ایک مرتبہ پھر جنگ میں کود پڑیں گے۔اس وقت ادلب ، حلب کے جنوبی محاذ ، دمشق کے نواحی علاقوں اور دیر الزور میں دریائے فرات کے مشرقی علاقے میں لڑائی جاری ہے۔اللاذقیہ میں واقع حمیمیم کے فوجی اڈے پر پُراسرار تباہ کن حملے بھی کیے گئے ہیں اور ان میں روسی فوجیوں اور طیاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔متحارف گروہ ایک دوسرے پر تابڑتوڑ حملے کررہے ہیں اوربیچارے شامی ہمسایہ ممالک کا رخ کررہے ہیں لبنا ن خبررساں ادارے کے مطابق حال ہی میں شام سے ایک خاندان طویل سفری صعوبتوں کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے لبنان کی جانب روانہ ہوا۔ مگر پورا خاندان بہ حفاظت اور سلامتی کے ساتھ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکام رہامیڈیا رپورٹ کے مطابق حال ہی میں شام کے حسن عید اور مشعل العلالی ان بیسیوں خاندانوں میں شامل ہیں جو شام میں بے سروسامانی کے عالم میں گھر سے نکل کریا تو مشکل حالات میں پھنس گئے یا جرائم پیشہ مافیا کے ہتھے چڑھ گئے۔
لبنان کے مقامی ذرائع کے مطابق عنجر، مجدل عنجر اور الصویری کے علاقے اس طرح جرائم پیشہ عناصر کے مرکز بتائے جاتے ہیںگذشتہ دو سال سے لبنانی فورسز نے سرحد پر نگرانی سخت کردی ہے اور شام سے شہریوں کی لبنان کی طرف نقل مکانی کافی مشکل ہوچکی ہے مگر شامی پناہ گزین ان جرائم پیشہ اور انسانی اسمگلر عناصر کی معاونت حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شام سے اوسطا یومیہ 200 خاندان غیرقانونی طور پر لبنان میں داخل ہو رہے ہیںلبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شدید برف باری اور سردی کے حالیہ موسم کے دوران شام سے فرار ہو کر لبنان آنے کی کوشش کرنے والے دو خاندانوں کے 3 بچوں سمیت 12 افراد سرحد پر ٹھٹھر کر ہلاک ہوگئے۔
ان کی لاشیں حال ہی میں جبل الصویری سے ملیں جو برف میں جم چکی تھیں۔ ہلاک ہونے والے تین بچوں کی لاشیں المنارہ اسپتال منتقل کی گئی ہیں جب کہ دیگر افراد کی متیں حب جنین اسپتال لائی گئیںلبنانی فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شام سے نقل مکانی کرنے والے 9 افراد کی لاشیں سرحدی پہاڑی علاقے الصویری سے ملیں جب کہ چھ کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ جاں بر نہ ہوسکے اور دم توڑ گئے۔ فوج کا کہنا ہے کہ مذکورہ تمام افراد خلسہ کے علاقے میں جانے کی کوشش کررہے تھے مگر طویل سرحدی راستے اور یخ بستہ برفیلے موسم کے باعث وہ زندگی کی بازی ہار ئے روزانہ ایسے کتنے واقعات رونما ہوتے ہونگے سارے میڈیا کی زینت نہیں بنتے زیادہ تر بین الاقوامی دنیا کی نظروں سے اجھل رہتے ہیں شام میں جاری جنگ کے نتیجے میں پناہ گزینوں کا مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا، معصوم ایلا ن کی ساحل پربہہ آنے والی ننھی معصوم لاش نے سماجی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں ہلچل مچا دی تھی اور بین الاقوامی اخبارات نے اسے صفحہ اول پر جگہ دی تھی کچھ ماہ تک بین الاقوامی برادری نے شامی پناہ گزینوں کے لیے آواز بلند کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ کوششیں سرد خانے کی نذر ہوگئیں بنیادی طور پر یہ مسئلہ مسلم امہ کا تھا جو بالکل بے بس اورلاچار ہے غیرکے ہاتھوں میں کھیلنے والی مسلم امہ کی لیڈر شپ امت کے درد سے محروم ہے انہیں امہ کے مسائل سے کم اورذاتی مسائل میں بہت زیادہ دلچسپی ہے بعض پانامہ کا رونا رورہے ہیں بعض امریکی محبت میں گرفتار ہیں بعض اپنی کرسی کومستحکم کرنے کے لیے اپنے گھر میں دست وگریباں ہیں ایک طیب اردگان امہ کے لیے آواز بلند کرتا ہے کیا فردِ واحد کروڑوں مسلمانوں کے مسائل تنہا حل کرسکتا ہے ؟اگر خلیجی مالدار ریاستوں کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا یہ صفر ہے اور ان خلیجی ریاستیں دولت سے مالا مال ہیں یہ ممالک بڑی بڑی عمارتوں، پرشکوہ محلات، عظیم مساجد اور وسیع و عریض جامعات جن کے اپنے ریلوے نیٹ ورکس تک ہیںکے حامل ہیں۔
یہ عرب دنیا کے امیر ترین ممالک ہیں، جن کے بڑے بڑے عسکری بجٹ ہیں اور یہ لبنان اور اردن جیسے غریب ممالک کے مقابلے میں مہاجرین کو پناہ دینے کی بہت زیادہ اہلیت رکھتے ہیںمتحدہ عرب امارات نے سوائے بیانات کے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اس کی بنسبت اقوام متحدہ کے ادرہ برائے پناہ گزین UNHCR کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کی سوا دو کروڑ آبادی میں سے قریبا پچاس لاکھ سے زائد افراد پڑوسی ممالک میں مہاجرین کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیںاور ان میں وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں تیرہ لاکھ نئے پناہ گزینوں کا اضافہ دیکھا گیا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یومیہ 7000 افراد کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے گھر بار کو چھوڑ دیں۔ سب سے زیادہ شامی پناہ گزین ترکی میں ہیں، جہاں ان کی تعداد 320000 سے زیادہ ہے۔
لبنان میں ان کی تعداد 220000، اردن میں 65000، عراق میں 22000 جب کہ مصر میں ان کی تعداد 15000 کے لگ بھگ ہے۔ خواتین اور بچّے کل مہاجرین کا تین چوتھائی بنتے ہیں ۔متحدہ عرب امارات چاہتا تو 50لاکھ مہاجرین کو پناہ دے سکتا تھا عملی اعتبار سے پاکستان امارات اورسعودی عرب کے مقابلہ میں مالی اعتبار سے کمزور ریاست ہے اس کے باوجود پاکستان دوعشروں تک 50لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کا شرف حاصل کرچکا ہے مختصر یہ کہ مسلم امہ کوجذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شامی پناہ گزینوں کے لیے کوشش کرنی چاہیے اورجنگ بندی کے لیے خصوصی اقدامات کرنے چاہییںتاکہ ہمارے شامی بھائی اپنے گھروں میں عزت کی زندگی گزار سکیں۔