نظام انتخاب کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت

Sadiq Sanjrani

Sadiq Sanjrani

تحریر : زاہد محمود

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف حزب اختلاف کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد جس طرح ناکامی سے دوچار ہوئی اس نے سینیٹ کے طریقہ انتخاب، ممبران ایوانِ بالا کی اہلیت اور دیانتداری پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑے ہیں ، ایک طرف حکومتی نمائندے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کے راہنما اپنی اس ناکامی پر سیخ پا ہیں ، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے 64 اراکین اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور اپوزیشن اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر چیئرمین سینیٹ کو لا نے اور ہٹانے کی پوزیشن میں تھی لیکن جب ووٹ گنے گئے تو مطلوبہ تعداد سے 3 ووٹ کم نکلے اور اپنی نشستوں سے کھڑے ہونے والے 64 میں سے 14 اراکین کا ” ضمیر” جاگ گیا ۔ اب اس ” ضمیر کے جاگنے ” کو ہم کیا نام دیں ؟ کیا یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اراکین پارلیمنٹ کا ” ضمیر ” جاگا ؟ اس کلچر کا بانی کو ن ہے ؟ اور اس کلچر کو پروان کس نے چڑھایا ؟ کیا موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے ” منتخب ” ہونے والے اراکین پارلیمنٹ عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں کر سکیں گے ؟ کیا یہ نظام کسی بھی سطح پر عوام کی ترجمانی کر سکا ہے ؟ کیا اس نظام انتخاب کو جاری رہنا چاہئے یا اس میں ترمیم یا تنسیخ کی گنجائش موجود ہے ؟ ان تمام سوالوں کے جواب ہم ذیل میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ” ضمیر جاگنے ” پر بحث کرتے ہیں ، کیا وجہ ہے کہ خفیہ رائے شماری میں 14 شخصیات کا ضمیر جاگا ؟ جبکہ 64 ارکین نے قرارداد پیش کرنے کی حمایت کی اور ان معزز ممبران پارلیمنٹ کی اپنی پارٹی اجلاس میں اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے سے آگاہ کرنے کی جرات نہ ہوئی ؟ کیا ان چودہ ممبران پارلیمنٹ کا ضمیر جاگا یا پھر انھوں نے اپنے ووٹ فروخت کیے، یا پھر کسی قسم کے دباؤ کے تحت فیصلہ کیا ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب اپوزیشن جماعتوں کو تلاش کرنے ہیں ۔ لیکن ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو موجودہ اپوزیشن کیا سیاسی جوڑ توڑ اور چھانگا مانگا کی سیاست نہیں کرتی رہی ؟ کیا ممبران اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کے لئے پیسہ کا استعمال ہماری موجودہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نہیں کیا گیا ؟ کیا موجودہ اپوزیشن پارٹیاں جب اقتدار میں تھیں اور اس وقت کے اپوزیشن کے راہنما اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی طرف سے یہ تجویز نہیں آئی تھی کہ سینیٹ کے انتخاب میں خفیہ رائے شماری کا قانون ختم کیا جائے جسکو ان دونوں بڑی جماعتوں نے مسترد کیا۔

ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ آخر کیا وجہ تھی پیپلز پارٹی جو اس وقت سینیٹ کے چئیر مین کو خود لائی تھی اب ان کو ہٹانے میں پیش پیش تھی ؟ کیا چیئیر مین سینیٹ نے ایوان کو چلانے میں کسی قسم کی کوتاہی کی تھی ؟ کیا موجودہ چئیر مین سینیٹ پر اپنے اختیار ات سے تجاوز کرنے یا کسی قسم کی بدعنوانی کا کوئی الزام تھا ؟ دستیاب معلومات کے مطابق یقینی طور پر ایسے کسی قسم کے کوئی الزامات صادق سنجرانی کی شخصیت پر نہیں لگائے گئے ۔ تو پھر جمہوری روایات کی یہ کونسی پاسداری کی گئی ؟ بلاول بھٹو صاحب کی طرف سے کہے گئے یہ الفاظ ” کہ پیسے بے شک لے لو لیکن ووٹ نہیں دینا انکو ” یہ کونسی جمہوری روایات کو فروغ دیا گیا ؟ ایک اور سوال جو ایک سیاسی کارکن یا سماجی کارکن کے ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ ہے جن بنیادوں پر سینیٹ کے ٹکٹ دیے جاتے ہیں اور سینیٹرز حضرات جس طرح ممبران اسمبلی کی وفاداریاں خریدتے ہیں اور سینیٹ کی کرسی کی ” خریداری ” کرتے ہیں تو کیوں وہ پارٹی پالیسی کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، عوام کے نمائندوں کا صادق امین اور دیانت دار ہونا سب سے اہم اور بنیادی وصف ہے اسکے بغیر قومیں ترقی نہیں کر سکتیں ۔ سینیٹ کے ممبران اور عہدیداران کے انتخاب پر وقت ، پیسہ اور توانائیاں صرف کرنے سے بچایا جائے اور پارٹی پوزیشن کے مطابق الیکشن کمیشن اسکا فیصلہ کرے جوکہ حقیقی جمہوریت کی عکاس ہے ۔ اور جماعتیں بہترین دماغ سینیٹ میں بھیجیں تاکہ سماجی ، معاشی، قانونی مسائل پر سیر حاصل بحث کرنے والے نمائندے قوم کو میسر ہوں اور جن کی دیانتداری پر کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو تاکہ عوام اپنے نمائندوں کو اپنا رول ماڈل بنا ئے جس سے معاشرے میں ایمانداری ، دیانتداری اور محنت کے جذبات فروغ پائیں گے ۔

ایک سوال جو کہ سنجیدہ طبقات کی طرف سے ایک عرصہ سے سننے میں آرہا ہے کہ کیا موجودہ نظام انتخاب ہمارے لئے سود مند بھی ہے یا ہمیں اس میں تبدیلی کرنا ہوگی ، میری ناقص رائے میں موجودہ نظام انتخاب میں چونکہ ممبران اسمبلی کا کروڑوں روپے خرچ ہوا ہوتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کروڑوں لگا کر اسمبلی میں عام آدمی کے مسائل پر بات کریں ایسا سوچنا غیر فطری ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عام آدمی کے مسائل سے صرف نظر کریں گے اور اجتماعی مسائل کے حل کی جانب بڑھنے کے بجائے صرف اپنے حلقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقیاتی فنڈز کو ترجیح دیں گے ۔ اس لئے قومی اور صوبائی سطح پر متناسب نمائندگی کا نظام انتخاب متعارف کروایا جائے اور ایک مضبوط بلدیاتی نظام متعارف کروانے کے بعد تمام ترقیاتی فنڈ بلدیاتی اداروں کو دیے جائیں صرف مرکزی اور صوبائی منصوبوں کے ترقیاتی فنڈ اپنے پاس رکھے جائیں جس سے وہ طبقہ جنکی سیاست ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ہوتی ہے وہ بلدیاتی سطح پر رہتے ہوئے بہترین عوامی خدمت کرسکے گا اور اسمبلیوں میں بہترین اور وفادار سیاسی کارکنان جو صرف اور صرف نظریاتی سیاست پر یقین کرتے ہوں گے وہی پہنچیں گے اور وراثتی سیاست کے امکانات کم سے کم ہوجائیں گے۔

متناسب نمائندگی نظام کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بہت سی سیاسی جماعتیں جو کہ اپنا ووٹ بینک تو رکھتی ہیں اور سٹریٹ پاور بھی رکھتی ہیں لیکن حلقے کی سیاست میں انکی اتنی گرفت نہیں ہوتی تو اس لئے انکے نمائندے اسمبلیوں میں نہیں ہوتے ، جبکہ اسکے مقابلے میں ایک حلقے سے الیکشن لڑنے والا آزاد امیدوار 70 ہزار ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے اور لاکھوں ووٹ لینے والی اور منظم کارکنوں والی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہوتی ہے جو کہ نظریاتی عوامی رائے کی توہین پر مبنی ہے ، اس سے سیاسی جماعتوں کا ” الیکٹیبلز ” پر انحصار کم ہوگا اور اپنی پالیسیاں بہتر طور مرتب کرنے میں کسی قسم کی بلیک میلینگ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور سیاسی جماعتوں کو ، لیبر، تاجر،وکلا،یوتھ، خواتین کے ونگ بنانے میں سفارش سے بالاتر ہوکر میرٹ پر فیصلے کرنے میں مدد ملے گی اور پارٹی کے اندر حقیقی جمہوریت آئے گی اور سوال و جواب کرنے والے اور خود کو جوابدہ سمجھنے والی قیادت سامنے آئے گی ۔
یہاں پر کچھ لوگوں کی رائے صدارتی نظام کے حق میں بھی ہوگی لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر اس نظام انتخاب کو ہمارے معاشرے کے لئے قابل عمل اور سودمند نہیں سمجھتا۔

درج بالا تمام تجاویز نیک نیتی کے ساتھ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہیں اور اس میں کسی قسم کا ذاتی عناد شامل نہیں ، قارئین سے گزارش ہے کہ اگر وہ کسی بھی سطح پر یہ سمجھیں کہ ان تجاویز میں کسی قسم کی بہتری لائی جاسکتی ہے یا اپنا نکتہ نظر مختلف رکھتے ہیں تومجھے انکا نکتہ نظر پڑھنے، سننے اور سمجھنے میں خصوصی دلچسپی ہوگی ۔ اور اس مقصد کے لئے میرا ای میل اکاؤنٹ آپکی رائے کے لئے ہمیشہ حاضر ہے۔

Zahid Mehmood

Zahid Mehmood

تحریر : زاہد محمود

(0346-8075065)