قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کو ان دنوں بے شماراندرونی و بیرونی مسائل نے جکڑارکھا ہے۔وطن عزیز میں کرپشن اور اقربا پروری اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہوجسے سیاسی جماعتوں نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا ہو۔پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا شاید ہی کوئی عوامی نمائندہ ایسا ملے جس نے پارلیمنٹ تک پہنچنے کے لئے اربوں کی سرمایہ کاری نہ کی ہولہٰذاسیاست میں سرمایہ کاری کرنے والے کو جب بھی موقع ملا وہ اقتدار کے ایوانوں میں منافع کا ایک بڑا ہدف اپنے ذہن میں متعین کرکے پہنچا یہی وجہ ہے کہ اب تک کرپشن کے کروڑوں اور اربوں کے نہیں بلکہ کھربوں روپے کے سیکنڈلز سامنے آچکے ہیں ،بدقسمتی سے کبھی کسی عوامی نمائندے نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ پاکستان معاشی بدحالی کا شکار کیوں ہوا؟، سرمایہ دار وں نے بیرونی ممالک کا رخ کیوںکیا؟،قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ تباہ حالی کا شکار کیوںہوا؟،سٹیل مل،پی آئی اے اور دیگر منافع بخش ادارے سفید ہاتھی کیسے بن گئے؟،بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے پیچھے کون سے محرکات تھے اور ان کا اصل ٹارگٹ کیا ہے؟،اقوام عالم میں پاکستان کی گرتی ساکھ کو کیسے بحال کیا جائے؟۔
اقتدار کے ایوانوں میں سالہا سال سے باریاں لگانے والے ان دنوں ہیجان کی سی کیفیت کا شکار ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر سے نیب زدہ اپوزیشن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر ” اتحاد ”کی باز گشت سنائی دی جا رہی ہے لیکن یہاںیا درہے کہ بالکل ماضی کی طرح متحدہ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک میں اب کی مرتبہ بھی کوئی دم خم نظر نہیں آ رہا کیونکہ کوئی سیاستدان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ حکومت سے ٹکر لی جائے ۔ کرپشن مقدمات میں ملوث نواز شریف،شہباز شریف،مریم نواز ،حمزہ شہباز اور زرداری سمیت دیگرسیاسی شخصیات کی خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت پر دبائو بڑھا کر معافی تلافی یعنی کہ”ڈیل ”اور ”ڈھیل” کیلئے ہرممکن راستہ تلاش کیا جائے ۔نظام تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار دا کرتا ہے۔ دنیا میں وہی ممالک ترقی یافتہ ہیںجوعموماً 100 فیصد شرح خواندگی کے حامل ہیں لیکن اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس حوالے سے منفی صورتحال ہی دیکھنے کو ملے گی لہٰذا آج کے جو ملکی حالات ہیں ان کی اصلاح کے حوالے سے بات کرنا آسان جبکہ عملدرآمدبڑا مشکل ہیکیونکہ عدم رواداری کے عمل کو اس سطح تک پہنچانے میں 72 برس لگے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم پر مختص برائے نام بجٹ ،پست شرح خواندگی، تعلیمی اداروں میں داخلے کی کمی، ترک مدرسہ کی بڑھتی شرح، تعلیمی سہولیات کا فقدان، معیاری نصاب اورتربیت یافتہ اساتذہ کا نہ ہونا، غربت، امن و امان کی ابتر صورتحال، تعلیمی مساوات کا فقدان، تعلیم کا دینی و دنیاوی دو دھڑوں میں منقسم ہونا سمیت کئی ایسے باہم مربوط مسائل ہیں جوترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ مسلمانوں نے علم سے ترقی کی ہے تلوار سے نہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم میں کمی مسلمانوں کے زوال کی وجہ بنتی گئی،اگربغور جائزہ لیا جائے تو 7 سو سال تک تمام سرفہرست سائنسدان مسلمان ہی تھے بعدا زاں انگریزوں نے ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کا نظام تعلیم تباہ کرکے اس میں طبقات پیدا کر دئیے۔
اہل مغرب شروع دن سے ہی امن و آشتی اور انسانی مساوات کے علمبردار دین اسلام کا تشخص خراب کرنے کیلئے مدارس کا ناطہ دہشت گردی سے جوڑ کر انہیں فروغ تعلیم کے راستے سے ہٹانے کی جامع منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور اس مقصد کے لئے انگریزوں نے مسلمانوں کو زوال کی طرف دھکیلنے کیلئے اپنا طبقاتی نظام تعلیم رائج کرکے اسلام کی نشاتہ ثانیہ میں نقب لگائی لہٰذادوہرے نظام تعلیم نے ہمارے معاشرے میں انسانی اقدار کو ختم کردیاہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم ستاروں پر کمند ڈال سکتے تھے مگر ہم نے امریکن سیٹیلائٹ بننے میں ہی عافیت سمجھی جس سے واحد تبدیلی یہی آئی کہ مغرب پر انحصار کرنے کی عادت سے ہم چھٹکارا نہ پا سکے اور خودمختاری ہمیشہ کیلئے اس کے قدموں میں ڈال دی گئی۔وطن عزیز جسے استدلال و حکمت کا گڑھ ہونا چاہئے تھا اسے عدم رواداری اور غیر منطقی فکر کا مرکزبنانے کیلئے غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
تعلیم کے میدان میں ہمارا یہی المیہ رہا ہے کہ سابقہ حکومتی ادوارمیں فروغ تعلیم کے تقاضے نبھانے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی چنانچہ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بتدریج دگرگوں ہوتی گئی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرنے کی سوچ پنپ ہی نہ پائی جبکہ شعبہ تعلیم سے حکومتی اغماض نے کمرشل تعلیم کے راستے کھول دئیے اور اس کاروبار نے مخصوص عناصر کو بیٹھے بٹھائے ارب پتی سے کھرب پتی بنادیا۔ اراکین پارلیمنٹ کی جعلی ڈگریوں کا دریافت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا معیار تعلیم کس نہج پر ہے لہٰذا ایسے گھمبیر حالات میں نظام تعلیم کی حقیقت کو دیکھ کریہی معیارِ تعلیم کا ایک نکتہ کردار سازی ہوتا ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ طلبہ کی سیرت اور ان کی روزمرہ زندگی میں کیا مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اگر یہی طلبہ اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی برائیوں کا شکار ہوتے ہیں، تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم معیار تعلیم میں آگے جانے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں،اس زوال کے پیچھے کئی وجوہات پوشیدہ ہیں مگر یہ بات مسلمہ ہے کہ ہم اس کی ذمہ داری صرف حکومت یا اساتذہ پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے اس کی بہتری کیلئے والدین، سول سوسائٹی اور حکمرانوں سمیت معاشرے کے تمام ذمہ دار افراد کا فرض ہے،مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے گلیوں، ورکشاپس اور بس اڈوں پر کام کرنے والے بچوں کو سکولوں میں لانے کیلئے اور ان کی مالی حالت بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اسلام ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔
علم و فضیلت ہماری بنیادی تربیت کا حصہ ہے لہٰذا مدارس کے طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھانا ہو گا۔ تعلیمی نظام میں یکسانیت لا کر ملکی ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پی کے کے اکثر و بیشتر تدریسی اثاثے جاگیرداروں اور وڈیروں کے قبضے سے واگزار کرانے،وہاں نئے مدارس اور تربیتی ادارے قائم کرنے کیلئے حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، پیشہ وارانہ اور تکنیکی تربیت پر بھرپور توجہ دے کر ماہر اور ہنر مند نوجوان پیدا کرنا ہوں گے،شب و روز تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے منصوبے تشکیل دینے کیلئے خصوصی پالیسی یونٹ قائم کرنا ہوں گے۔شرح خواندگی میں اضافے اور مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے سکولوں کی تعداد اورسہولیات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تربیتی وتکنیکی تعلیم کے مواقع کی فراہمی کے لئے مئوثر پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی اوراس کیلئے ایک ہی نصاب تعلیم رائج کرنا ہو گا۔