تحریر : رانا اعجاز حسین حکومت کی ذمہ داری اقتدار کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل حل کرنا ،اورخود کو عملی تصویر کے طورپر پیش کرکے قوم کی بہترین اخلاقی تربیت کرنا ہوتا ہے ۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اگر عوام پاکستان کے مسائل کا ازالہ کرتیں، اور یہاںسیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہوکر خالصتاً عوام کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات کیے جاتے تو یقینا عوام پاکستان کی بہترین اخلاقیات دیکھنے میں آتیں، اور آج ملک صحیح سمت میں گامزن ہوتا۔ بلاشبہ قوانین پر بلا امتیازعمل درآمدسے معاشرہ مہذب بنتا ہے، اور اقرباء پروری ، رشوت ستانی معاشرے کے بیگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ انگنت مسائل سے دوچار ہمارے ملک میں دہشت گردی کی روک تھام ہو یا کرپشن سے چھٹکارہ،کتنے ہی طاقتور آپریشن کرلیے جائیں یا جدید قوانین کیوں نہ بنالئے جائیں، قوم کی بہتر ذہنی اور اخلاقی تربیت اور اصلاح معاشرہ کے بغیر ملک میں خوشحالی ممکن نہیں۔ دنیا بھر میں آج زندہ و جاوید قوموں کی فہرست میں وہ ممالک شامل ہیں جہاں عوام کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اور جنہیں نظر انداز کیا گیا وہاں خانہ جنگی اور جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی برائیوں نے جنم لیا ہے۔ اسی قسم کی کیفیت کچھ ہمارے یہاں بھی ہے۔
14اگست1947 ء کو لا زوال قربانیوں کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آیا تو قیام پاکستان کا مقصد ایک اسلامی ، فلاحی ریاست کے طور پر تھا مگر مملکت خداداد میں ہر آنے والی قیادت نے قیام پاکستان کے مقصد اور ملک وقوم کی تعمیر و ترقی کوپس پشت ڈال کر اقتدار اور سیاسی مصلحتوں کو ترجیح دی، جس کے نتیجے میں ملک میں کبھی الیکشن اور الیکشن نما سلیکشن ہوتا رہا، کبھی جمہوریت کبھی آمریت، کبھی مارشل لاء کے ذریعے نت نئے تجربات آزمائے گئے ۔ جس سے نہ صرف ادارے تباہ ہوتے رہے بلکہ قوم صحیح سمت نہ ملنے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور حکمران اپنے اقتدار کی کھینچا تانی میں قوم کو رو ندتے ہوئے آگے نکلتے رہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ آج حکمران طبقہ اقتدار کی حرص و ہوس اور مراعات میں بہت آگے اور قوم بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ برسوںسے مروجہ ضابطوں پر حکمران آج بھی ا سی طرح کاربند ہیں اور ا نکی اقتدارکی ہوس آج بھی ا سی جوبن کے ساتھ قائم ہے، اور پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار قوم اب مذید تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ حکمران اور ادارے ملک کی بااثر طاقت کے طور پر اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ قوم کس طرف جارہی ہے ہم آئندہ نسل کو کیا دینے جا رہے ہیں اسکی کسی کو فکر نہیں ہے۔
ستر برس سے بکھری قوم کو آج بھی یکجا کرنے یا سمیٹنے کے لئے اقدامات نہیں کئے جارہے۔ ریاست کاچوتھا ستون اوردور حاضر کی بااثر طاقت میڈیاجو بکھرے معاشرے کو ایک مضبوط قوم بنانے میں خاطر خواہ کردار ادا کرسکتا ہے بھی اپنی ریٹنگ کیلئے قوم کو دوسروں کے غیر اخلاقی کلچر میں دھکیل رہا ہے۔ مارننگ شو سے لیکر نیوز بلیٹن تک ، بچوں کے پروگرامز سے لیکر ڈراموں تک سب پاکستانیت کی بجائے غیرملکی تہذیب سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اور عوام جب یہ سب کچھ صبح سے رات تک دیکھتے ہیں تو اسکے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔غریب کی جھونپڑی سے لیکر محلات تک سب اپنی اپنی حیثیت اور پہنچ کے مطابق مغربی تہذیب اور غیروں کی ثقافت سے متاثر ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریب سے لیکر خالصتاً مذہبی تہوار وں تک بھی غیر تہذیبی اثر نمایاں ہے۔ سرکاری یا نجی سطح پر کوئی تقریب ہو، سیمینار ہو یا ثقافتی شو، تہذیبی اقدار کے نام پررقص و سر ور کی محافل کا انعقاد لازمی امر ہے۔ جبکہ ملک کے بیشتر نام نہاد دانشور اور روشن خیال طبقہ اغیار کی گندی و کھوکھلی تہذیب میں سانس لینا فخر سمجھتے ہیں۔
یہ فرق بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ ہے اور یہی فرق ان جماعتوں کے زندہ رہنے کی وجہ ہے۔کیو نکہ یہ فرق اگر ختم ہو جاتا ہے تو اس کی بنیاد پر سانس لینے والی تمام جماعتیں دم توڑ دیں گی جوکہ ایسا وہ کبھی ہونے نہیں دیتیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ جس دن ان جماعتوں کا عوام میں قائم کردہ یہ فرق ختم ہوگا اس دن انکی پہچان صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہوگی۔عوام کے درمیان قائم کردہ اسی فرق کی بنا پر آج ملک کا ہر فرد دوسرے فرد سے کھچاؤ میں مبتلاہے۔ ایک علاقہ یا قبیلہ دوسرے علاقے یا قبیلے سے ا لجھا ہوا ہے اور ایک دوسرے کیخلاف اپنا حق چھینے جانے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔دوسری جانب ہر شہری کو حکومت و حکومتی اداروں سے اورحکومت و حکومتی اداروں کو شہریوں سے، عوام کو پولیس سے اور پولیس کو عوام سے کسی نہ کسی مسئلے پرایک دوسرے سے زیادتی کی شکایت رہتی ہے۔ ریاستی ادارے حکومت سے نالاں ہیں تو حکومت اداروں کی حدود کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔
تناؤ کی سی کیفیت سے دوچار معاشرے میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ ملک کے چپڑاسی سے لیکر اعلیٰ افسران تک سب کرپشن کے بیمار ہیں۔ سرکاری دفاتر میں افسران اول تو آفس آنا گوارہ نہیں کرتے اگر بھولے بسرے کبھی آ بھی جائیں تو کام نہیں کرتے۔ اگر کسی کا کام کرنا بھی پڑتا ہے تو ا سکے الگ سے پیسے ہوتے ہیں کیونکہ تنخواہ تو صرف آفس آنے کی ہوتی ہے کام کرنے کی نہیں۔ صحت جیسے حساس شعبے کی یہ حالت ہے کہ ڈاکٹرز اسپتالوں میں کم اپنے پرائیویٹ کلینکس میں زیادہ دستیاب ہوتے ہیں اور میڈیسنز ان کمپنیوں کی تجویز کرتے ہیں جوگاڑی سے لیکر بیرون ملک کی سیر تک کا انکے لئے انتظام کرتی ہے، اسطرح انہیں دوائیوں کی معیاد اوراثرات کے برعکس اپنے کمیشن سے غرض ہوتا ہے۔ سرکاری صحت اور تعلیم کی اسی زبوں حالی کی بنا پر ہر شخص پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے، فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑتی ہے۔
بدسکونی، عدم تحفظ اور انتشار کے شکار موجودہ معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ حکمران اورریاست کا چوتھا ستون ا بلاغ عامہ باہمی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کو اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر معاشرے کی اصلاح، ملک سے کرپشن کے خاتمے ، معاشرتی برائیوں اور لاقانونیت کے خاتمے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کی از سر نو نشودنماء کے لیے موثر کردار اداکریں، اور خالصتاً مشرقیت کو فروغ دیا جائے۔ اسطرح سے افراد پر مشتمل ایک بہترین قوم بن جائے گی اور ملک سے انتشار بھی ختم ہو جائے گا اور تہذیب بھی رہ جائے گی۔ موجودہ حکومت کو سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہوکر ملک میں قانون کی بالا دستی اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے ، اور ملک بنیادی اداروں مثلاً بجلی، سوئی گیس، شہری ترقی کے اداروں، یونین کونسلوں اور سول عدالتوں سے رشوت کے خاتمہ یقینی بنانا چاہئے۔ اور کرپشن کے خاتمے کے لئے قائم اداروں ، انٹی کرپشن ، ایف آئی اے ، وفاقی و صوبائی محتسب، قومی احتساب بیورو کو عوامی سطح پر فعال کرنا چاہئے اور ان اداروں سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے عوامی شعور بیدار کرنا چاہیے ۔ عوامی مسائل کے حل میں ہی ملک و معاشرے کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔
RANA AIJAZ HUSSAIN
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل: ranaaijazmul@gmail.com