لاہور (جیوڈیسک) کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکالنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا، اچھے کھلاڑیوں کو مختلف انداز میں ہینڈل کیا جاتا ہے۔ مختلف انداز میں برتائو کرکے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ٹیم کی ناکامی کے وقت کھلاڑیوں پر بعض اوقات غیر ضروری تنقید کی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ ہم نچلی سطح پر کھلاڑیوں کو کیا سہولیات دے رہے ہیں، کیسی تربیت دے رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر نے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی ٹیم کی حالیہ ناکامیوں کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے، اس کا ذمہ دار صرف سلیکشن کو ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ میں تین سال کے معاہدہ پر پاکستان آیا ہوں۔ اکیڈمی پروگرام کا سلسلہ بار بار منقطع ہوتا رہا ہے، اس کے نتیجے میں آج ہم معیاری کھلاڑیوں اور ڈویلپمنٹ کے کاموں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
دنیا نے اس عرصے میں سائنسی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے خاصی ترقی کرلی ہے۔ ون ڈے کرکٹ کو دیکھیں، ٹونٹی ٹونٹی کے معیار پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جن شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت تھی، ہم نے نہیں کیا۔ متبادل کھلاڑیوں کی تیاریوں کے حوالے سے نیشنل اکیڈمی کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ اس سلسلے میں میں 2003ء عالمی کپ کی مثال سب کے سامنے ہے جب تمام بہترین کھلاڑی ٹیم سے الگ ہوئے تو ہمارے پاس سسٹم میں کچھ کھلاڑی تیار تھے جو ٹیم کو دیئے گئے۔ اس کے علاوہ بھی شروع میںجب اکیڈمیز فعال تھیں، یہ عام بخوبی کیا گیا۔ پھر جب کام نہیں ہوا تو آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
اب ہم نے اس پورے نظام کو بحال اور فعال کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ کوشش ہے کہ جتنا وقت مجھے ملا ہے، اس دوران نظام کو مضبوط کردوں تاکہ ملکی کرکٹ کو اس سے فائدہ ملتا رہے۔ ہمیں نچلی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ گرائونڈز کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ہماری فیلڈنگ کا شعبہ بھی اس لئے ہی کمزور ہے کہ نچلی سطح پر اچھے گرائونڈز دستیاب نہیں ہیں۔
آج اسلام آباد اور پشاور سے اچھے کرکٹر صرف اس لئے سامنے آرہے ہیں کہ وہاں کھیل کی سہولیات اور ماحول ملک کے دیگر علاقوں سے بہت بہتر ہے۔ امن و امان کی وجہ سے یہاں ٹیمیں نہیں آرہیں ۔ پاکستانی عوام کی کرکٹ سے محبت اور لگائو سے غیر ملکی کھلاڑی متاثر ہیں۔ ہم نے اکیڈمیز پروگرام سارا سال جاری رکھنے ہیں، ریجنل کوچز کے پاس فارغ بیٹھنے کا وقت نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں زیادہ تر وقت اپنے اپنے ریجن میں گزارنا چاہئے۔ ہم نے بائیو مکینکس لیب کے کام میں بہت تاخیر کی ہے، اب کوشش ہے کہ اسے جلد ازجلد عالمی معیار پر لایا جائے تاکہ ہمارے کھلاڑیوں کو نچلی سطح سے ہی مشکلات سے نکالا جائے۔