تحریر : عتیق الرحمن برصغیر میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور کے خاتمے کے بعد انگریز نے اپنا تسلط قائم کر لیا تو اسلامی حمیت و غیرت رکھنے والے اہل فکر و دانش نے جد و جہد آزادی کی طرح ڈالی جس کا آغاز امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے زمانہ میں ہوا کہ انہوں نے مسلمان خلفاء کی کمزوری و پستی پر قابو پانے کیلئے اور دشمنوں کو مغلوب کرنے کیلئے احمد شاہ ابدالی سے مدد طلب کی۔ پھر ان کے فر زند ار جمند شاہ عبد العزیز نے بر صغیر کو دارالحر ب قر ار دیکر مسلما نو ں کو ہجر ت کی تر غیب و دعو ت دی جس کے سبب بہت سے مسلما ن افغا نستا ن ہجر ت کر جا نے میں کا میا ب ہو گئے تو افغا نستا ن کے حکمرانوں نے اسلا می اور انسا نی ہمد ردی و حمیت سے عا ری ہو کر مسلما نو ں کو اپنے ملک میں دا خلے سے رو ک دیا ۔اس کے بعد شا ہ عبد العزیز کے شا گر د رشید سید احمد شہید اور عا لم جلیل شا ہ اسما عیل شہید نے بر صغیر کے مسلما نو ں کو ظا لم و جا بر غیر مسلم حکمرا نو ں سے نجا ت دلانے کیلئے تحر یک آ غا ز کیا جو بنیا دی طو ر پر کا میا ب ہو ئی کہ ان کی جدوجہد سے پشاور و نواح کے علاقوں میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آیاچو نکہ اسکی رگو ں میں سید زا دوں کا اخلا ص اور صا لح عمل اور نیک ارادہ شا مل تھا مگر پھر اغیا ر کے کا سہ لیس چند مفا د پر ست مسلما نو ں نے غدا ری و دھو کہ دہی کا مظا ہر ہ کیا جس کے سبب دو نو ں مجا ہد ین حر یت و آ زا دی سید احمد شہید اور سید اسما عیل شہید با لا کو ٹ کے پہا ڑو ں میں جا نثا ر وں کے ہمر اہ جا م شہا دت نو ش کر گئے ۔ اس جانی و مالی قر با نی کا نتیجہ تھا کہ مسلما نان ہند انگر یز کے تسلط سے آ زا دی کے حصول میں کمر بستہ ہو گئے اور بلآ خر تحر یک آ زا دی میں ہز اروںنہیں لا کھو ں انسانو ں کی قر با نیو ں کے نتیجے میں ایک الگ خا لص اسلا م کے نظر یہ پر ریا ست کا قیا م پاکستان کے نا م پر عمل میں آ یا۔
ملک پا ک کے قیا م کے بعد بہت سے مسلما ن ہند وستا ن میں رہنے پر مصر رہے کیو نکہ ان کا مد عا یہ تھا کہ الگ ریا ست کے قیا م سے مسلما نو ں کی وحر یت تقسیم ہو جا ئیگی اور متحد ہ ہند وستا ن کے نتیجے میں ممکن ہے کہ تاریخ گم گشتہ کی بہا ریں مسلمان دو با رہ حا صل کر نے میں کا میا ب ہو جا ئیں مگر عوامی مقبو لیت مستقل ریا ست کا نعر ہ لگا نے والے قا ئد ین کو ملی ۔اس کے با وجو د بر صغیر کی چو ٹی کے علما ء جن کا اپنے زما نہ میں طو طی بو لتا تھا نے بھی پا کستا ن کے قیا م کے بعد اس کو احتر ام وعزت کی نگا ہ سے دیکھا ۔ یہا ں تک کہا کہ مسجد کی تا سیں کے وقت اختلا ف ہو تا ہے کہ کو ن سی جگہ پر قا ئم ہو مگر اسی کے قیا م کے بعد اس کی حفا ظت اور احتر ام میں کو ئی دقیقہ فر و گز اشت نہیں کیا جا سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ مجلس احر ار اسلا م کے قا ئد سید عطا ء اللہ شا ہ بخاری،علامہ سید سلیمان ندوی ،مولانا ابولااعلیٰ مودودیسمیت متعدد مقتدر شخصیا ت نے با و جو د متحد ہند و ستا ن کے نعرہ کے حا می ہو نے کے پا کستا ن میں حیا ت با قی ماندہ گزارنے کا فیصلہ کیا ۔بھا رت میں سکو نت اختیا ر کر نے والے علما ء و مشائخ کے دلو ں کی دھڑ کنیں اور آ رزو ئیں ملک پا کستا ن کی حفا ظت و بقا کیلئے ہمیشہ ساتھ رہیں ۔یہی نہیں کہ وہ ملک پا کستا ن کی تعمیر و تر قی کے خو اہا ں تھے بلکہ وہ اس مملکت خدا د کو مسلما نا ن عالم کا بعد از خدا سہا را و مدد گا ر تصو ر کر تے تھے اوروہ یہ خو اہش رکھتے تھے کہ پا کستا ن عا لم اسلا م کی عملی زند گی میں قیا دت کر تے ہو ئے دنیا بھر کے مظلومو ں کی دادرسی کر ے اور بطو ر آ ئیڈ یل ومثا ل اسلا م کے نظا م کا نفا ذکر کے ظا لم وسرکش عالم کفر کے سا منے ما دی و نظر ی دنیا میں نما یا ں مقا م حا صل کر ے۔
ہند وستا ن کے عظیم مفکر و دانشو ر اور دا عی جن کا احترا م عر ب و عجم کے علما ء و مفکر ین بر ابر کر تے تھے میر ی مرا د سید ابو الحسن علی ند وی (علی میا ں ) ہیں ۔وہ دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم مما لک کا با ریک بینی سے جا ئز ہ لینے کا بعد یہ کہتے نظر آ ئے کہ پا کستا ن اسلا می دنیا کی رو ح ہے ۔عا لم عر ب اور اسلا می مما لک میں زند گی کی نئی رو ح پید ا کر نے کیلئے پا کستا ن کو اپنا کر دار ادا کر نا ہو گا ۔اسلا م کے عقا ئد پر ایک نیا یقین ایک نیا اعتما د ایک نیا ولو لہ عمل اور ذمہ دا ری جسے ادا کر نے سے او نگھتی ہو ئی آ ما دہ زوال اور ڈ گمگا تی قو مو ں کو نئی زند گی اور نیا جو ش و خر و ش ملے پا کستا ن پر عا ئد ہو تی ہے (مو لانا ابو الحسن علی ند وی حیا ت و افکا ر کے چند نمو نے۔ترتیب :سفیر اختر )وہ یہ بھی فر ما تے تھے کہ پا کستا ن عا لم اسلا م کی فکر ی راہنما ئی کا ذمہ دا ر ہے پا کستا ن جس نظر یے کا دا عی و علم بر دار ہے اس کا تقا ضا یہی ہے کہ یہ ملک دنیا بھر میں اس نظر یہ حیا ت کے ما ننے وا لوں کیلئے ایک فصیل اور مثا ل کا کا م دے ۔دنیا کے جس گو شے میں بھی اسلا م اور مسلما نو ں کو کو ئی صد مہ پہنچے ان کی نگا ہیں پا کستا ن کی طر ف اٹھیں تو کبھی نا مراد نہ لو ٹیں۔ ما ضی میں جو مقا م سلطنت عثما نیہ کو حا صل تھا وہ اس مملکت خداد کے حصہ میں آ ئے ۔علی میا ں پا کستا ن کو تین اہم بیما ریو ں سے پا ک دیکھنے کے خو اہشمند تھے جس کا اظہا ر انہو ں نے دورہ پا کستا ن کہ مو قعوں پر اجتما عا ت سے خطا ب کر تے ہو ئے کیا۔
انہوں نے فرمایا کہ یہ ملک اس وقت تک صحیح معنو ں میں مستحکم نہیں ہو سکتا تا و قتیکہ اس میں لسا نی و علا قا ئی عصبیت کے سر طا ن کو قر یب نہ بھٹکنے نہ دیا جا ئے کیو نکہ اس کے سبب نظر یہ پا کستا ن جو در اصل نظر یہ اسلا م ہی ہے پا رہ پا رہ ہو جا ئے گا اور ہر ایک اپنی زبا ن و علاقے کو فو قیت دینے کی بجا ئے اپنے وطن سے محبت کر تے ہو ئے اعتما د واتفا ق کا مظا ہرہ کر یں اور دو سر ی جس خر ابی سے پا کستا ن کو محفو ظ دیکھنا چا ہتے تھے وہ یہ تھی کہ فر وعی اختلا فا ت کی مباحث کو خا لص علمی اور علما ء کے حلقو ں میں محدود کر کے عا مة المسلمین کو علمی وکلامی محنتوں سے الگ کر دینا چا ہتے تھے کیو نکہ کم علم افراد فقہی و کلا می مبا حث کے اختلا ف کے نا م پر فتنو ں کو اٹھا نے کے مو جب بن سکتے ہیں جس سے ملک کی سلا متی کو نقصا ن پہنچنے کا قو ی امکا ن ہے ۔ اسی طر ح تیسر ی با ت جس سے وہ پا کستا ن کے مسلما نو ں کو پا ک دیکھنا چا ہتے تھے ۔وہ یہ کہ فر قہ بند یو ں اور گر وہ پسندی میں غلو کہ ہر ایک انسا ن اپنی جما عت کو حق بجانب سمجھ کر دو سر وں کو غلط و با طل خیا ل کر کے ان کے مقا بل صف آ راء ہو جائے ، یہ امر بھی زوال ملت کا سبب ہے۔
(گز شتہ 70بر س کی تا ریخ کو دیکھاجائے تو واضح معلو م ہو تا ہے کہ ان مذکو ر ہ با لا خر ابیو ں نے ملک پا کستا ن کو نا قا بل تلا فی نقصا ن پہنچا یا ہے یہا ں تک کہ ملک مغربی و مشرقی حصوں میں دولخت ہو ا (پاکستان اوربنگلہ دیش) ۔ملک میں سیا سی و مذ ہبی، لسا نی و علا قا ئی بنیا دوں پر قتل و غا رت کا نا ختم ہو نے والا سلسلہ دیکھنے کو ملا جس کا نتیجہ ہے کہ ہما رے بعد آ زاد ہو نے والے مما لک کئی ہزا ر درجہ تر قی کی منا زل طے کر چکے ہیں اور ہما رے یہاں اب بھی یہ بحث الیکٹر انک و پر نٹ میڈ یا پر قصد اًرواج دی جا تی ہے کہ با نی پا کستا ن قا ئد اعظم محمد علی جنا ح اسلا می ریا ست بنا نا چا ہتے تھے یا سیکو لر یہ امرمقا م عبر ت و شر مند گی ہے کہ ہم نے لا کھو ں مسلما نو ں کی روحو ں کا خو ن کر دیا۔راقم) یہی وجہ ہے کہ مو لا نا ابو الحسن علی ند وی نے پا کستا ن کے دو لخت ہو نے کے سا نحے پر غم وا لم اور حز ن وملا ل کے آ نسو بہا تے ہو ئے اس کی وجہ اور نقصا ن کو بیا ن کر تے ہو ئے فر ما یا کہ” میر ے نز دیک اسی کی سب سے بڑ ی وجہ اسی قو م میں صحیح دینی شعورکی کمی تھی قلب کے ساتھ دما غ کا مو من ہو نا بھی ضر وری ہے۔
تنہا اسلا م کی محبت کا فی نہیں اس کے ساتھ خلا ف اسلا م فلسفوں اور دعو تو ں کی نفر ت بھی لا زمی ہے بلکہ قر آ ن مجید میں متعدد مقا ما ت پر طا غو ت اور شیطا ن اور جا ہلیت کے داعیوں سے بغا وت اور بیز اری کا ایما ن با للہ سے پہلے ذکر کیا گیا ۔”اورپس جو کو ئی سر کشی کاانکا ر کر کے اللہ پر ایما ن لے آ یا اس نے ایک ایسا مضبو ط سہا را راتھا م لیا جو کبھی ٹو ٹنے والا نہیں (سورہ بقر ہ 256)”سقوط ڈھا کہ کا نقصان بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعا ت کا شر منا ک پہلو یہ ہے کہ اس سے مخا لفین کو اسلا م کی نا کا می کے ثبو ت کیلئے ایک دلیل ہا تھ آ ئی اور انہو ں نے اس سے یہ نتیجہ نکا لا کہ اسلا م میں را بطہ بننے اور مختلف قو مو ں اور نسلو ں کو (جن کی زبا نیں اور رنگ نسل مختلف ہیں )متحد کر نے کی صلا حیت نہیں ہے نیز یہ کہ اسلا می عقیدہ کی بنیادپرکسی معا شر ہ اور کسی ریا ست کے قا ئم ہو نے ،اور اگر قا ئم ہو جا ئے تو با قی رہنے کا امکا ن نہیں یہ وہ معنو ی خسا رہ ہے جس کا کو ئی خسا رہ مقا بلہ نہیں کر سکتا۔
اس سے اسلا م کی سا کھ کو بہت بڑ ا نقصا ن پہنچا ہے اور آ پ جا نتے ہیں کہ تجا رت میں اصل چیز سا کھ اور اعتبا ر ہے (کا رو ان زند گی جلد دوم 133-136)۔” مند رجہ بالا کلا م سے قا ری یہ اند ازہ ہر گز نہ لگا ئے کہ علی میا ں قیا م پا کستا ن کے بعد کے حا لا ت کا مشا ہد ہ کر کے ہمیشہ کیلئے نا امید و ما یو س ہو گئے بلکہ انہو ں نے ہمیشہ بحیثیت مؤرخ تا ریخ کے اسا سی اصو لوں کوپیش نظر رکھتے ہو ئے ما فا ت کے برے حالات و واقعات سے درس و عبرحا صل کر تے ہو ئے زوال کے اسبا ب کا بغو ر جا ئز ہ لے کر نو جو انو ں کو وہ راہنما اصو ل بتلائے کہ ان کو اختیا ر کر کے ارض پا کستا ن کو گل گلز ار بنا یا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ بحیثیت مسلم قر آ ن و سنت سے اکتسا ب فیض کے بعد لا زمی ہے امت کے ان محسنوں کی تعلیما ت کا بھی بنظر عمیق اور علم کے بیکر اں کے وسیع سمند ر سے بھی خو شہ چینی کر کے دنیا و آ خر ت کی کا میا بی و کا مر انی اور اقبا ل مند ی کیلئے سعی و کو شش کی جائے۔چو نکہ علم و تحقیق کسی رسم و روایت کا نا م نہیں بلکہ یہ رویہ بے لو ثی اور اقبا ل مند ی کا متقاضی ہے کہ ریت کے ذرا ت پر قد م جما نے سے کچھ حا صل نہیں ہو سکتا اس کیلئے قر آ ن حکیم کی سو رہ کہف میں مذ کو ر نو جو ا نو ں کے جذ بے و لو لے اور جر أت کو بطو ر مثا ل اختیا ر کر نا ہو گا اسی لیے مو لا نا علی میا ں نے نو جو انو ں کو اپنے اندرتین او صا ف پیدا کر نے کی دعو ت دی ۔اول:نو جو انو ں کا وجو د صر ف اپنے ہی نہیں بلکہ دو سرو ں کیلئے بھی نفع مند ہو کہ انکے ذریعے ملت کے طبقات و افراد کو رہنما ئی وہدایت ملنے کے ذرا ئع میسر آ ئیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ بد ھ ازم یاغا لی صو فیا کی طر ح گیان و معرفت کے حصو ل کیلئے گو شہ نشینی اختیا ر کر لی جا ئے اور دنیا کو اپنے افکا ر حق سے محر وم کر دیا جا ئے ۔فر ما ن نبو ی ۖبھی ہے کہ لا رہبا نیہ فی الا اسلا م ”اسلام میں گوشہ نشینی نہیں”کہ دنیا سے قطع تعلق ہوجایا جائے بلکہ کمال تو یہ ہے کہ دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی کیلئے سعی و کوشش کی جائے۔دو سر ی صفت جو نو جو انو ں کو اپنے اندر پیدا کر نے کی ضرو رت ہے وہ یہ ہے کہ نو جو ان نسل اپنے اندر استغنا کی صفت پیدا کر یں ۔یعنی کہ حا جا ت و ضر وریا ت دنیو ی کی تکمیل کیلئے اسرا ف و تبذیرکو شعا ر بنا نے کی بجا ئے کفا یت شعا ری اور قنا عت پسند ی کو اختیا رکریں کہ بقدر ضر ورت ما ل ودو لت حا صل کر نے کی سعی کی جا ئے نہ کہ ھل من مز ید کو اختیا ر کیا جا ئے کہ عیش و عشر ت کیلئے جا ئز و نا جا ئز اور دست سو ال در از کر کے ما ل و متا ع جمع کی جا ئے ۔بد یہی امر ہے کہ حر ام ما ل اور لو گو ں سے مدد و استعا نت طلب کر نے والاشخص دین حنیف کیلئے آزادانہ طورپر صا لح و نا فع کا م کر نے سے عا جز ہو تا ہے کہ اس کی زبا ن گنگ اور قلم خشک ہو جا تا ہے حا کم و معا ون کے ڈرو خو ف سے۔ اس لیے اس عجز و کمز وری سے اجتنا ب کر تے ہو ئے استغناء کو اختیا ر کر لیا جا ئے ۔تیسر ی با ت جس کی مو لا نا ابو الحسن علی ند وی نے ملت اسلا میہ کے نو جو انو ں کو تر غیب دی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے شعبہ علم وفن میں کما ل مہا رت حا صل کی جا ئے کہ دنیا بھر کے لو گ ان سے اخذ کر نے کی خو اہش رکھنے لگیں اور با صلا حیت قو م کو دنیا کی کو ئی قو م تسخیر نہیں کر سکتی جیسا کہ تا ریخ شا ہد ہے کہ اوائل کی پا نچ صدیو ں تک ریسر چ و تحقیق اور فحص و تمحیص کے میدا ن کے شا ہسوار رہے تو ان کا طو طی چہا ر دانگ عا لم بو لتا نظر آ تا تھا۔ یو رپ و مغر ب با و جو د حقد اور تعصب کے بھی ان کی خدادصلا حیتوں کا اعتراف کر نے پر مجبو ر ہواہے۔ مسلما نو ں نے یو نا نی ورو می اور فا رسی تہذ یبو ں کے علوم و افکار کے ورثہ سے دل کھو ل کر استفا د ہ کر نے کے ساتھ اس میں یہا ں اضا فہ کر تے ہو ئے علم کیمیا ء ،علم جر احت ،علم ریا ضی ،علم فلکیا ت و نجو م ،علم طب اور فن تعمیر سمیت تا ریخ و جغر افیہ و غیر ہ جیسے علو م و فنون میں اپنا یگانہ نا م پیدا کیا کہ مغر ب کی اقو ام اسلا می مملکت کے طو ل و عر ض میں مفت تعلیم حا صل کر تی رہیں۔
مولاناعلی میاں نے ملت اسلا میہ کے شبا ب کو جہا ں اسلا می غیر ت و حمیت اختیا ر کر نے کی دعو ت دی ہے کہ ان کی نظر میں اسلا م محکو م نہیں بلکہ حا کم بننے اور قیا دت و سیا دت کی با گ ڈور سنبھالنے کیلئے آ یا ہے ۔ نبی اکر م ۖ کی بعثت کے ساتھ خیر امت کی بعثت کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کیلئے ظلمتو ں اور گمر اہیوں سے نجا ت حا صل کر نے کا واحد تر یاق اسلا م ہی ہے جو خا لق ارض و سما ء کی جا نب سے محبوب تر ین بندہ و پیغمبر پر اتا را گیا ۔و ہیں پر مو لا نا نے نو جوا نو ںکیلئے انداز تحر یر و تقر یر کوبہتر بنا نے کیلئے بھی ہدا یا ت بیا ن کر دیںہیں کہ قر آ ن و سنت کے بعد کتب سیر اور تا ریخ جن میں صحا بہ و تا بعین اور آئمہ کے حا لا ت و معمو لا ت مد ون ہیں سے رہنما ئی حا صل کر نے کے ساتھ ما ضی قریب کے مشہو ر مفکر ین اور ادبا ء اور علماء کبار کی کتب سے مستفید ہو نے کی تر غیب بھی دی کہ مطا لعہ اور تحر یرو ں کی مشق کیلئے اس وقت نو جو انو ں کو مو لا نا شبلی نعمانی ،مو لا ناالطاف حسین حا لی ،علا مہ اقبا ل ، اکبر الٰہ آ با دی ،مو لا نا سید سلیما ن ند وی ، مو لا ناابولکلام آ زاد،مو لا نا ابو الاعلی مو دودی ،مو لا نا عبدالما جددریاآبادی ،ڈاکٹر سید عا بد حسین ،چو ہد ری غلا م رسول مہر،مو لا نا شا ہ معین الد ین ند وی کی کتا بو ں اور تحر یر وں کامطا لعہ کر نا چا ہیے۔ علی میاں نے یہ بھی بیا ن کیا ہے کہ جہاں پران کی شخصیت کو نکھارنے میں بہت سی کتب و شخصیات کا کردار ہے وہیںپر مذکو رہ بالاشخصیا ت کا حصہ بھی نما یا ں ہے۔
بیسو یں صدی کا آ خر ی سو رج غر وب ہو نے سے چند گھنٹے قبل مسلما نان عالم ایک عظیم صد مے سے دو چا ر ہو ئے ۔رمضا ن المبا رک اور 31دسمبر 1999 ء نما ز جمعہ سے قبل بحا لت تلا وت کلا م اللہ مفکر اسلا م ، امت مسلمہ کے عظیم داعی مو لا نا ابو الحسن علی ند وی مشر ق و مغر ب، عر ب و عجم کے کر وڑوں مسلما نو ں کو سوگو ار چھو ڑ کر جو ار رحمت میںمنتقل ہو گئے ۔آ ج ان کو ہم سے جد ا ہو ئے 17بر س بیت چکے ہیں مگر ان کی کتب اور شا گر د وں کی بد ولت علم وعمل کا فیضا ن تا حا ل جا ری و سا ری ہے چو نکہ جس علم و عمل میں اخلا ص شا مل ہو تو خدا ئے لم یز ل اس پیغا م اور دعوت کو زند ہ و جا وید رکھنے کا سا ما ن خود پید ا کر تا ہے ۔اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ مو لا نا علی میا ں پر کر و ڑہا کر وڑ رحمتیں اور را حتیں نازل کرے اور ان کے مر قد کو جنت کے با غ کا حصہ بنا ئیں اور ملت اسلا میہ کے بہی خو اہو ں کو قرا ن و حدیث کے ساتھ ان کی تعلیما ت و کتب سے استفادہ کی تو فیق عنا یت کر ئے۔ آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے