تحریر: محمد نواز بشیر ایک دفعہ ایک بادشاہ نے ایک محنت کش کے گدھوں کو ایک قطار میں چلتے دیکھا بادشاہ نے محنت کش کو بلایا اور پوچھا یہ کس طرح سیدھے چلتے ہیں محنت کش نے کہا جو لائن توڑتا ہے اس کو سزا دیتا ہوں بادشاہ بولا میرے ملک میں امن و امان ٹھیک کر سکتے ہومحنت کش نے حامی بھر لی اور بادشاہ کیساتھ چل پڑادارالحکومت پہنچتے ہی عدالت لگا لی’ چور کا مقدمہ آیا تو چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جلاد نے وزیراعظم کی طرف اشارہ کیا کہ چور کو انکی سرپرستی حاصل ہے محنت کش نے پھر حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے وزیراعظم سمجھا شاید جج کو پیغام کی صحیح سمجھ نہیں آئی وہ آگے بڑھا محنت کش کے کان میں کہا کہ یہ اپنا آدمی ہے محنت کش نے بطور جج فیصلے کا اعلان کیا چور کا ہاتھ کاٹا جائے اور وزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے بادشاہ نے فیصلہ پر عمل کرایا آگ و خون کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک میں ایک ہی فیصلہ سے مکمل امن قائم ہو گیا۔اگر گنہگار کی سفارش کرنیوالی زبان کاٹ دی جائے اگر اپنوں کی سرپرستی چھوڑ دی جائے اگر مخالفین کو پھنسانے کی سیاسی چالیں بند کر دی جائیں تو گولیاں چلنا بھی بند ہو جائیں گی اور قتل و غارت بھی رک جائے گا۔
آج کل ہمارے ملک کے حالات بھی ایسے ہیں کہ ہر طرف آگ و خون کا کھیل جاری ہے دہشت گردی ،مہنگائی ،بے روزگاری،امن و امان کی ناقص صورت حال کی وجہ سے عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قانون صرف غریب کے لئے ہے جبکہ امیراپنی دولت کے بل بوتے پربڑی آسانی سے اسے خریدلیتے ہیں۔ملک میں امن و امان قائم رکھنا،جرائم کو ختم کرنا اور عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ہر حکومت کا اولین فریضہ رہا ہے سابقہ حکومتوں سے لے کر موجودہ حکومت تک امن و امان کی ناقص صورتحال اور پولیس مظالم کیخلاف عوام اور میڈیا نے بہت واویلا مچایامگر ہر حکومت پولیس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی اور مزے کی بات یہ ہے کہ پولیس خود ان کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے تیار نظر آتی ہے جس سے پولیس بے راہ روی کا شکار ہوئی اور اپنی من مانیاں اور کارروائیاں کرنے میں فخر محسوس کرنے لگی ہے جس کا ذکر میڈیا اور اعلی عدالتیں انتہائی دکھ اور کرب کے ساتھ کر تی رہتی ہیں ، ملک میںخوف و دہشت کی فضا کو ختم کرنے کی ذمہ داری جس محکمے پہ سب سے زیا دہ عائد ہوتی ہے وہ پولیس ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارا پولیس کا نظام ہمیں انگریز سے ورثے میں ملا ہے اور انہوں نے یہ نظام مفاد عامہ میں نہیں بلکہ سامراج کو عوام پہ مسلط کرنے کی غرض سے وضع کیا تھا۔اس نظام کا واحد مقصد یہ تھا کہ جو لکیریں انگریز آقا کھینچتے چلے جائیں قوم کو انکی فقیری پہ لگا دیا جائے۔
Police
نہ ہی کبھی ہماری سیاسی حکومتوں کو یہ توفیق ہوئی کہ اس محکمہ کو حکام کی چاکر ی کی بجائے عوام کی خدمت او ر تحفظ پہ مامور کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ پولیس کا موجودہ نظام مجرموں کے تحفظ اور عوام کے خوف کا باعث بنا ہوا ہے عوام دہشت گردی سے اتنا ہراساں نہیں ہیں جتنا کہ پولیس کی ناقص کارکردگی سے نالاں ہیںہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تھانوں اور چوکیوں کو روزانہ کی بنیاد پہ ایندھن اور دیگر ضروریات کے لیے جتنی رقم فراہم کی جاتی ہے اس میں یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ تھانے کی حدود میں گشت کر کے عوام کی خبر گیری کی جائے اور اگر کوئی ستم رسیدہ فریادی زنجیر عدل ہلانے کی جسارت کرتے ہوئے تھانے تک آجائے توآمد و رفت کے اخراجات اسی کی جیب سے وصول کیے جاتے ہیں۔ پھر مدعی اور مدعا علیہ دونوں سے رقم بٹوری جاتی ہے اور بالآخر جیت اسی کی ہوتی ہے جو زیا دہ خرچ کرے یہیں سے رشوت کا کلچر جنم لیتا ہے اور قانون کی وردیوں میں ملبوس اہلکار ہی قانون کی دھجیا ں اڑا دیتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اہلکاروں کو جدید سہولیات اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ خدمت کا معاوضہ عوام سے نہ وصول کیا جائے۔
اسی پہ اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ایسا نظام وضع کیا جائے جسکی بدولت کالی بھیڑیں منظر عام پہ آسکیں عوامی سطح پہ ایسے ادارے یا کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو محکمے کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر حکومت تک پہنچائیں،ہمارے نظام پولیس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اسکے افسران و سپاہیوں کی یہ سوچ ہے کہ پولیس کا تعلق جرم و سزا سے ہے اور محکمے کا کام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے حالانکہ اس محکمے کا فرض امن کا قیام ہے۔بظاہر تو یہ الفاظ کا ہیر پھیر نظر آتا ہے مگر فی الحقیقت ان دونوں سوچوں کو اثرات اور ثمرات ایک دوسرے سے قطعی طور پہ مختلف ہیں۔ پہلی سوچ محکمے کو آقا اور عوام کو غلام بنا دیتی ہے جبکہ دوسری سوچ محکمے کو اپنی عوام کا خادم ومحافظ بنا دیتی ہے۔پہلی سوچ کے حامل اہلکار عوام کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری سوچ کے اہلکار عوام کے جان و مال کے تحفظ کا سوچتے ہیں۔
پولیس اہلکاروں کااپنے محکمے کے بارے میں عقید ہ بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے عوام کی توقعات پہ پورا اتر سکیں،ماضی میں پولیس کے اعلی افسران کئی بار کہہ چکے ہیں کہ تھانوں میں اکثرمقدمات جھوٹے درج ہوتے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ معاشرے کی بگاڑ میں سب سے زیادہ حصہ پولیس کا ہے ، اگر ہم دوسرے ممالک کی بات کریں تو ان ممالک کی پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ دوستانہ ہوتا ہے اور وہاں کرپشن کی شکایات بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیںہمارے ہاں پولیس جھوٹے مقدمے درج کرتی ہے ان جھوٹے مقدمات میں غریب اور شریف شہریوں کی تذلیل اور پیسے کا ضیاع اور کربناک ذہن لئے لوگ نہ صرف معاشی بدحالی میں ڈوب کر انتہا پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں بلکہ پولیس کے رویے سے ان کی باقی زندگی جیلوں کی نظر ہو جاتی ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی کی جائے خادم اعلی نے پنجاب پولیس کا مورال بلند کرنے کے لئے تنخواہوں میں اضافہ کیا تاکہ پولیس معاشی فکر سے آزاد ہو کر جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کیلئے ہمہ تن گوش ہو کر کام کرے جس کے بعد وہ اچھے نتائج کی توقع کر رہے تھے لیکن سب بے سود ہوا اس بات کا برملا اظہار وزیراعلی ٰ نے خود بھی کیا ہے پولیس کی تنخوا میں کیا جانے والا اضافہ ان کو سیدھے راستے پر لانے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکا ۔