پنجاب پولیس میں اس وقت جہاں اچھے افسران موجود ہیں وہی پر کثیر تعداد میں کالی بھیڑیں بھی پائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گنتی کے وہ چند افسران ایک حد تک تو سب اچھا ہے کی رپورٹ کو کنٹرول کررہے ہیں مگر اس سے اوپر انکے بھی اختیارات جلتے ہیں اور وہ کاروائی کرنے کے اختیار کے باوجود کچھ نہیں کرسکتے بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پولیس کے جونیئر افسران اپنے سے سینئر کو کسی کھاتے میں ہی شمار نہیں کرتے اپنی مرضی کی پوسٹنگ آج بھی وہ اپناحق سمجھتے ہیںاس وقت پنجاب کے 36اضلاع میں 712 پولیس تھانے موجود ہیں جبکہ ہماری خدمت کے لیے ایک لاکھ اسی ہزار سے زائد محافظ موجود ہیں جن کے آئے روز قصے منظر عام پر آرہے ہیں شائد یہی وجہ تھی کہ آئی جی صاحب کو میڈیا پر پابندی لگانا پڑی کہ کوئی بھی میڈیا پرسن بغیر اجازت کسی بھی پولیس اسٹیشن میں نہیں جاسکتا اور نہ ہی کسی کا انٹرویو لے سکے گا کیونکہ ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والوں کے سیاہ کارنامے سامنے آ رہے تھے بے گناہ افراد کی چھترول روز کا معمول ہے۔
پولیس مقابلوں میں انسانوں کا شکار انکا پسندیدہ کھیل ہے ماہر شکاری جسطرح پرندوں کو اڑا کر مارتا ہے اسی طرح ہمارے شیر جوان بندھے ہوئے انسان کو بھگا کر پیچھے سے نشانہ بناتے ہیں اور پھر صلاح الدین جیسے افراد بھی جان کی امان پا کر پوچھتے ہیں کہ آپ نے تشدد کے طریقے کہاں سے سیکھے ہیں جسے کتے کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا گیا اور کربلا کے ماننے والوں نے اسے پانی کا ایک گھونٹ تک نہ دیا یہ تو وہ ویڈیو تھیں جو سوشل میڈیا پر وائر ل ہوگئی اور پولیس کے کرتوت سب کے سامنے آگئے نہ جانے کتنے صلاح الدین ہر روز پنجاب کے تھانوں میں ظلم و بربریت کا شکار ہو رہے ہیں آپ ذرا ہمار نظام قانون ملاحظہ فرمائیں کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کو تھانوں میں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے اور چھوٹے چور کو مار مار کر اسکی کھال اڈھیر دی جاتی ہے مریم صفدر کا 1 مہینے کے ریمانڈ میں میک اپ تک نہیں اترا اور صلاح الدین کی صرف ایک دن میں وحشی درندوں نے کھال اڈھیڑکر موت کے منہ میں پہنچا دیا گیا۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جس قوم کے کمزوروں پر ظلم ہو اورطاقتوروں کے لیے معافیاں و رعایتیں ہوںایسی قوم کو تباہی و بربادی سے کوئی بچا نہیں سکتایہی وجہ ہے کہ آج سرمایہ دار اور طاقتور ہمارے پورے نظام کو منہ چڑا رہا ہے اگر صلاح الدین نے اے ٹی ایم مشین پر کھڑے ہوکر کیمرے کو منہ چڑایا ہے تو بزدار صاحب یہ اس پورے نظام کا تماشا ہے جہاں غریب کو ذلت اور ڈاکوﺅں کو عزت دی جاتی ہے جہاں شراب اور شباب والوں کو نوازا جاتا ہے اور یہ اس نظام کا منہ چڑایا جارہا ہے جس نظام کے تحت منتھلیاں لیکر مک مکا کیا جارہا ہے اور کپتان صاحب یہ منہ چڑا رہا ہے یہ پوری تبدیلی سرکار کو منہ چڑا رہا ہے یہ کنٹینر کے ایک سو چھبیس دنوں کو منہ چڑا رہا ہے یہ دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے کو منہ چڑا رہا ہے۔
یہ شعور کے دعویداروں کو منہ چڑا رہا ہے یہ تبدیلی پر ناچنے والوں کو منہ چڑا رہا ہے یار یہ ہم کو منہ چڑا رہا ہے پتہ لگا یہ کیوں منہ چڑا رہا تھا؟دو دن اس کے منہ چڑانے پر ہم کتنا ہنسے تھے چوتھے دن اس کی لاش جگہ جگہ سے کٹی ہوئی,جلی ہوئی ہم کو منہ چڑا رہی تھی اور سرد خانے سے جب صلاح الدین کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے کی لاش سے لپٹ کر سسکیاں بھر کررویا تو پھراسکی ہر ایک سسکی پورے نظام کو منہ چڑارہی تھی اور صلاح الدین جاتے جاتے ساہیوال کے اندوہناک واقعہ کو بھی زندہ کر گیاخیر چھوڑیں یہ تو پنجاب کے دور دراز علاقے رحیم یار خان کا قصہ تھا آپ زرا لاہور کے تھانوں کو ملاحظہ فرمائیں جہاں اب خادم اعلی کی بجائے وزیر اعلی براجمان ہیں جن کے اوپر بننے والی ایک خفیہ رپورٹ بھی کسی حیرت سے کم نہیں جو وزیراعظم عمران خان کو پیش بھی کی گئی مگر اسکے باوجود میرے کپتان نے سنی ان سنی کردی وہ رپورٹ کیا تھی اس پر پورا ایک کالم پھر کسی دن تحریر کرونگاپوری پنجاب کابینہ ہے۔
چیف سیکریٹری ،آئی جی پولیس سمیت ہر اعلی سے اعلی افسر یہاں موجود ہے مگر پھر بھی لاہور کے تھانے داروں نے اپنی اپنی حکومت قائم کررکھی ہے اپنے علیحدہ علیحدہ تارچر سیل بنائے ہوئے ہیں جہاں تشدد کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں پیسوں کا لین دین ہوتا ہے اور انسانوں کی بولیاں لگائی جاتی ہیں ابھی چند دن پہلے تھانہ گجر پورہ کا نجی ٹارچر سیل پکڑا گیا جہاں ایک کمرے میں انسانوں کو بغیر کسی جرم کے بھیڑ بکریوں کی طرح بند کیا ہوا تھا آج صرف لاہور کو ہی دیکھ لیں جہاں جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں نشہ ہمارے گلی محلوں سے ہوتا ہوا سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں تک جا پہنچا کرکٹ میچوں کی بک کھلے عام ہو رہی ہے شہریوں کی جان ومال کی مزید حفاظت کے لیے بنائی جانے والی ڈولفن فورس وہیل فورس بن چکی ہے جو قریب سے گذرنے والے ہر شریف شہری کو اپنا شکار سمجھ کر اس پر جھپٹ پڑتی ہے۔
جی حضور یہ صوبائی دارالحکومت لاہور ہے جہاں تھانوں میں اسی کی سنی جاتی ہے جس کے پاس نوٹ کی طاقت ہو ووٹ کی طاقت والے تو خود انکی خوش آمد میں لگے ہوئے ہیں رہی بات پنجاب کی اور بلخصوص پسماندہ پنجاب کی جہاں پولیس والے اپنے آپ کو نعوذ بااللہ خدا سمجھے ہوئے ہیں جہاں ان کی اجازت کے بغیر کوئی اچھا کام ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی برا جہاں غریب کو پاﺅں میں بٹھا کر سر پر جوتیاں برسائی جاتی ہیںجہاں انصاف کا لفظ صرف کتابوں میں پڑھنے کو تو مل جاتا ہے مگر دیکھنے کو انصاف میسر نہیں عوام نے اسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے تو ووٹ دیا تھا جو ابھی تک صرف ایک خواب ہی ہے ویسے تو ہمارا وزیراعظم بڑا ہینڈسم ہے جوبغیر پرچی کے تقریر کرلیتا ہے اورپاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا خواہش مندبھی ہے اور اس نظام کو تبدیل بھی کرنا چاہتا ہے جو گذشتہ 72سالوں سے ہمارا منہ چڑا رہا ہے اور نا جانے ابھی اور کتنے صلاح الدین اس بگڑے ہوئے نظام کا منہ چڑا کر اپنی بے بسی کا رونا روتے رہیں گے۔