جمعتہ المبارک کے دن سے شروع ہونے والا سال 2021 کا اختتام بھی جمعتہ البارک کو ہی ہو گا دن مہینے اور سال گذرتے جا رہے ہیں پچھلا سال گذرا مگر ہماری پولیس نے اپنا رویہ نہیں بدلا،انکی وردی بدلی مگر انکا رویہ نہ بدلا، نظام بدلا مگر کالی بھیڑیں نہ بدلی آئی جی پر آئی جی بدلا مگر پولیس کے شیر جوانوں نے اپنا رویہ نہ بدلا اب سی سی پی او لاہور کو بھی بدل دیا گیا مگر پولیس ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہی نہ جرائم کنٹرول ہو رہا ہے اور نہ ہی انکا رویہ ابھی شیخ عمر کو تبدیل کرکے غلام محمود ڈوگر کو لگایا ہی تھا کہ پولیس تھانہ غالب مارکیٹ نے دو بے گنا بہن بھائیوں کو سرعام بے عزت کرکے اپنے نئے سی سی پی او کو سلامی دیتے ہوے پیغام دیدیا کہ بزدار حکومت جو مرضی کرلے ہم نے نہیں بدلنا بے شک ساری دنیا بدل جائے یہ صوبائی دارالحکومت لاہور ہے جہاں پروزیراعلی سردار عثمان بزدار بقلم خود موجود ہیں بلکہ پورے صوبہ کو کنٹرول کرنے والے بڑے بڑے نام یہاں موجود ہیں۔
اسکے باوجود لاہور میں پولیس گردی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بہن بھائیوں کو سڑک پر کان پکڑوا کر ذلیل وخوارکردیا جاتا ہے جی ہاں یہی ہمارے محافظ ہیں جو ہمیں تحفظ دینے کی بجائے رسوا کررہے ہیں ان سے جرائم کنٹرول ہوتے ہیں نہ ہی منشیات فروشوں پر قابوہے ہر تھانہ کے اندر جرائم پیشہ افراد کی لسٹیں موجود ہیں مگر پکڑتے نہیں کیوں؟ اس لیے کہ وہ ہماری نوجوان نسل کو جو زہر بیچ رہے ہیں اس میں ان کا حصہ ہے شیخ عمر کو اس لیے تبدیل کردیا گیا کہ وہ جرائم پر کنٹرول نہیں پاسکے اور نئے سی سی پی او کے آتے ہی انہوں نے سڑک پر میلہ لگا لیا پولیس کو بے لگام کرنے والے ہمارے سابق حکمران ہیں جنہوں نے میرٹ کی دھجیاں آڑاتے ہوئے اپنے ووٹ پکے کرنے کے لیے نااہلوں کو بھرتی کرلیا میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے نائب تحصیلداروں اورتھانیداروں کی بھرتی کے ساتھ ساتھ سبھی محکموں میں اپنے ووٹروں کو بھرتی کیا اور آج انہی نااہلوں کی وجہ سے نہ صرف لاہور بلکہ پورا پنجاب جرائم کا گڑھ بنا ہوا ہے اگر پچھلے سال کی وارداتوں کا ذکر کیا جائے تو سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں خواتین سے زیادتی کے 3ہزار 264اور اجتماعی زیادتی کے ایک سو 81کیسز رپورٹ ہوئے 2ہزار 255مقدمات کا چالان ہوا جبکہ 4سو 44کیسز زیر تفتیش ہیں،اجتماعی زیادتی کے ایک سو 24مقدمات میں چالان مکمل ہو سکا۔
خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی مسز شاہین بشیر کا کہنا ہے یہ کیسز اصل میں رپورٹ ہونے والے کیسز سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن خواتین خاندانی دبا میں آکر رپورٹ نہیں کرتیں جبکہ کچھ پولیس کے نظام کے باعث تھانے نہیں جاتیں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنے کے لیے معاشرے کے ہر طبقہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ صنف نازک معاشرے کی ترقی میں بلا خوف و خطر اپنا کردار ادا کرسکے۔ہماری پولیس مجموعی طور پر آرام پرست اور کاہل بن چکی ہے اگر انہیں ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی معاونت حاصل نہ ہو تو یہ بلکل فارغ ہو جائیں سوائے چوروں، ڈاکوؤں، منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کے اور کچھ نہ کریں واردات کے گھنٹوں بعد پہنچنا انکا وطیرہ ہے آنکھیں ملتے ہوئے جب یہ جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں تو مظلوم کی داد رسی کی بجائے اسے ہی برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں پولیس ایک ایسا محکمہ ہے جہاں ایک نہ ایک بار ہر انسان کا واسطہ ضرور پڑتا ہے اور وہ بخوبی جانتے بھی ہونگے کہ انکا رویہ کیسا ہوتا ہے پولیس نے لاہور کا اس وقت یہ حال بنا رکھا ہے تو جنوبی پنجاب کے علاقوں کے لوگوں کا تو بس اللہ ہی مالک ہوگا جسکو چاہا پکڑ لیا پیسے لیے اور چھوڑ دیا۔
ہمارے ہاں پولیس ایک دہشت کا نام ہے کسی شریف انسان کے گھر دو پولیس والے آجائیں تو پورا محلہ مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع کردیتا ہے خواہ وہ ملنے والے اسکے دوست ہی کیوں نہ ہوں ہمارے خود ساختہ خادموں نے ملک کو پولیس اسٹیٹ بنا کررکھ دیا ہے اب اس نظام کو جتنا مرضی تبدیل کرنے کی کوشش کرلیں یہ نہیں بدل سکے گا لاہور کے سنگ دل پولیس افسروں کی لسٹ نکال کردیکھ لیں نہ ملے تو عابد باکسر کے انٹریو سوشل میڈیا پر مل جائیں گے جو پولیس مقابلوں کا ماہر سمجھا جاتا تھا اس نے تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام بے نقاب کردیے تھے مگر کیا ہوا کچھ بھی تو نہیں کیونکہ پولیس کو ساتھ رکھنا ہم سب کی مجبوری بن ہے کسی نے شوقیہ گن میں اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے تو کسی نے پروٹوکول کی خاطر پولیس والے کو اپنا سیکیورٹی گارڈ بنایا ہوا ہے ہمارے سیاستدانوں نے مکالفین کو کچلنے کے لیے بھی پولیس کا بے دریغ استعمال کیا جھوٹے مقدمات میں پھنسانا تو کوئی مشکل کام ہی نہیں بلکہ سب سے مشکل کام ایک انسان کی جان لینا ہوتا ہے جو انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
حالانکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے مگر ہم آئے روز انسانیت کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں پولیس تھانوں میں تعیناتیاں کبھی بھی میرٹ پر نہیں ہوتی کانسٹیبلوں کو پیسے یا سفارش کے بغیر نہیں لگایا جاتامحرر اور ایس ایچ او تو بڑی توپ چیزہوتی ہے اسکے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہونگے یہ وہی جانتے ہونگے جو اس کھیل کا حصہ ہیں اور جب تک سفارشی اور راشی پولیس افسران موجود ہیں تب تک سڑکوں پر بیچ چوراہوں میں کان پکڑوا کرایسے ہی ووٹ کو عزت ملتی رہے گی یہ وہی ووٹر ہیں جن کے ووٹ سے حکمران بنتے ہیں اور پھر انہیں کو ذلیل ورسوا بھی کرتے ہیں جس دن ہماری پولیس ٹھیک ہوگئی اس دن ہمارا نظام بھی ٹھیک ہو جائیگا۔