سودی نظام کب تک؟

Riba Interest

Riba Interest

تحریر: امتیاز علی شاکر :لاہور
بہت دنوں سے ذہن میں سود کے حوالے سے کچھ سوالات گردش کر رہے تھے جو اپنے ملک کی اسلامی خاص طور پر سیاست میں حصہ لینے اور حکو متوں میں شامل رہنے والی اسلامی جماعتوں کے امیروں کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا تھا۔ علم و عمل کی کمی کی وجہ سے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ اتنا تو میں جانتا ہوں کہ سودی لین دین کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین (اسلام )سختی سے ہر قسم کے حرام سے دوررہنے کی تلقین فرماتا ہے۔

میں سود کے خلاف پہلے بھی قلم اُٹھا چکا ہوں آج میں اپنے علماء کرام کی خدمت میں کچھ اہم سوالات پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ سود کے خلاف متعلق کچھ کھری اور سچی دلیلیں پیش کروں گا ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کے حرام ہونے کے حوالے سے فرمایا کہ یہ قانون پوری انسانیت کی تعمیر واصلاح اور فلاح کے لئے ہے۔لہذا اس کا اطلاق نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں پر بھی ہوگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میںسودی کاروبار ایک جرم بن گیا ہے۔عرب کے جو قبیلے سود کھاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو اپنے اعمال کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے تو اُن کے خلاف جنگ کی جائے گی ”یعنی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کا لین دین کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد (جنگ)فرما کر یہ بات واضع کردی کہ سود کا کاروبار کرنے والے اللہ تعالیٰ اور اُس کے دین کے دشمن ہیں۔

نجران کے عیسائیوں کوجب اسلامی حکومت کے تخت میں اندرونی خود مختاری دی گئی تومعاہدہ میں تصریح کر دی گئی کہ سود ی کاروبار کرو گے تومعاہدہ ختم ہوجائے گا اور ہمارے تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی ۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اہل طائف کے ساتھ معاہدہ امن کیا توسودی لین دین کے خاتمے کی شرط لگائی ۔حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول ہے کہ جو شخص اسلامی مملکت میں سود چھوڑنے پر تیار نہ ہوتو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اُس کی گردن اُڑا دے ۔”مختصر کہ سودی لین دین کرنے والوں اور اُن کے نظام حکومت کے خلاف اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان جنگ کیا ہے۔

میرا پاکستان کے تما م علماء خاص طور پر مولانا فضل الرحمن ،مفکر و شیخ اسلام مولانا طاہرالقادری، سید منور حسن ،سراج الحق اوردیگر غیر سیاسی علماء کرام کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ سود کے خلاف خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان جنگ کر رکھا ہے تو پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے والے سودی نظام کا حصہ اس قدر خاموشی سے کس طرح بن سکتے ہیں؟جب ہماری حکومتیں آئی ایم ایف سے سود پر قرض لیتی اور اپنے ملک کے نوجوانوں کو سود پر قرض دیتی ہیں تو ہم مسلمان اور اہل علم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کیوں نہیں کرتے ؟آخر وہ کون سی مجبوری ہے جس نے علماء کرام کو سودی نظام کے خلاف آواز بلندکرنے سے روک رکھا ہے ؟آخر وہ کون سی زنجیریں ہیں جنہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے ہاتھ پائوں جکڑ رکھے ہیں؟ کیوں ہم اُن لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے ہیں جن کا جینا مرنا،اُوڑھنا بچھونا ،کھانا پینا ،سونا جاگنا یہاں تک کہ ہر عمل سودی نظام میں لت پتھ ہے ؟ ہمارے علماء کرام نے کوئی نیا اسلام دریافت کرلیا ہے جس میں سود کو حرام کی بجائے حلال ہونے کا شرف حاصل ہے تو پھر علماء قوم کو اُس دین سے آگاہ کیوں نہیں کرتے ؟اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ لڑنے والوں کے ساتھ سودی نظام میں رہتے ہوئے کوئی امن معاہدہ طے پاچکا ہے تو پھر علماء صاحبان صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے کہ اب سود اُس قدر حرام نہیں رہا۔

Islamic Finance System

Islamic Finance System

مجھے لگتا ہے کہ اپنے سوالات کو مزید الفاظ دینے کی کوشش کروں گا تو ممکن ہے گمراہی کی حدوں سے گزر جائوں اس لئے میں آج علماء کرام اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمن ،مفکر و شیخ اسلام مولانا طاہرالقادری ، سید منور حسن اور دیگر تمام علماء کرام کی خدمت میں نہایت عاجزی کے ساتھ یہ سوال رکھتا ہوں کہ سرعام سود کا نظام چل رہا ہے ہم کب اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق اس نظام حرام کے خلاف اعلان جنگ کریں گے؟ کب تک ہم حرام کھانے کے بہانے تلاش کرتے رہیں گے؟کب تک اس ظلم کے نظام کے خلاف جنگ نہیں کریں گے ؟علما ء کرام سے سنا ہے کہ جو مسلمان غلطی سے (بے خبری میں)حرام کھا لے بارگاہ الٰہی میں 40روزتک اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی یعنی بے خبری میں حرام کھانے والا مسلمان 40روز تک بارگاہ الٰہی سے دور ہوجاتا ہے۔ ایسا ہے تو ثابت ہوا کہ حرام نہ کھانے والے مسلمان کی جائز دعا بارگاہ الہی میں کبھی رد نہیں ہوتی ۔قارئین محترم ذرہ غور کریں بے خبری میں حرام کھانے سے انسان اپنے رب کی بارگاہ سے دور کر دیا جاتا ہے تو پھر جان بوجھ کرروزانہ حرام کھانے والوں کا کیا حال ہوگا؟پوری کی پوری قوم نظام حرام کی دلدل میں سر سے پائوں تک ڈوب چکی ہو ،چاروں اطراف سودی لین دین جاری ہے۔

جواللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی اور جنگ لڑے تو اُس قوم کو ذلیل و رسوا ہونے سے کون بچا سکتا ہے ؟کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتا ہے ؟کون ہے جو ہمیں حرام کھانے کے باوجود بارگاہ الٰہی میں مقبول کردے ؟کون ہے جو اس جنگ میں ہمارے لئے فتح کا انتظام کرے گا؟آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ہر نقصان کی ذمہ داری فوری طور پر امریکہ یا کسی اور ملک پر عائد کردیتے ہیں ۔کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم توخود اللہ تعالیٰ اور اُسکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیاز علی شاکر :لاہور
imtiazali470@gmail.com