کاہنہ’ لاہور (محمد عمران سلفی سے) نشتر ٹائون لاہور میں تعینات ٹی او پی خالد رشید اور ان کے اسسٹنٹ میاں عاصم کوئی جائز کام بھی مبینہ طور پر پیسے لئے بغیر نہیں کرتے کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر موٹی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔
پتہ چلا ہے کہ انہوں نے بیش قیمت جائیدادیں بنا رکھی ہیں جو اپنے بچائو کیلئے رشتہ داروں کے نام کرو رکھی ہیں ‘ عوام کو روزانہ خوار کرتے ہیں جبکہ چمک دکھانے والے کا کام فوری کر دیا جاتا ہے۔
ان اہلکاروں کی وجہ سے پنجاب حکومت خاص طور پر میاں شہباز شریف کے دعوں کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔گزشتہ روز سپریم سی این جی 17کلو میٹر فیروز پور روڈ لاہور کے مالک اپنے جائز کام کیلئے سی این جی کے ساتھ والے پلاٹ کو سی این جی میں شامل کرانے کے لئے مکمل ثبوتوں جن میں ہائی کورٹ کا فیصلہ پاکستان گزٹ’ پیٹرولیم ایکٹ’ اقبال ٹائون لاہور کی طرف سے جاری کردہ تین این او سی اور تین عدد درخواستوں کے ساتھ لف کرکے مختلف تاریخوں میں دیں جو ایڈمنسٹریٹر نشتر ٹائون نے ڈائری نمبر لگا کر ٹی پی او خالد رشید اور میاں عاصم کے پاس بھیج دیں۔
ٹی ایم او کو بھی کاپی ڈائری نمبر لگا کر بھیج دیں’ ٹی او پی او انکے اسسٹنٹ نے بتایا کہ ہائی کورٹ لاہور کا فیصلہ اور پاکستان گزٹ کے رول نمبر 10(115) ایکٹ 1937 کے مطابق چاہے ایل ڈی اے کا علاقہ ہوپلاٹ شامل کرکے این او سی پر ٹی ایم او اور نقشہ پر ٹی پی او نے دستخط کرنے ہیں۔ تمام ثبوت فراہم کرنے کے باوجود وہ روزانہ چکر اور بد اخلاقی سے پیش آتے رہے اور آخر کہا کہ اگر اپنا کام کروانا چاہتے ہو تو لاکھوں ادا کرو پھر تمھارا کام ہو جائیگا ورنہ ہمیں ‘ نواز شریف ‘شہباز شریف بھی کہیں تو کام نہیں ہوگا۔سپریم سی این جی کے مالک آصف سعید نے اعلیٰ حکام کو درخواستیں دی ہیں کہ راشی خالد رشید ٹی او پی اور اس کے اسسٹنٹ میاں عاصم کیخلاف کارروائی کی جائے اور انہیں ان کے پلاٹ کی شمولیت کا این او سی و نقشہ جاری کیا جائے۔
دریں اثنا جنرل سیکرٹری انجمن بہبودی پنجاب محمد رفیق میاں ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور’ ڈاکٹر ذوالفقار ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور’حاجی اختر انور ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور’ ڈاکٹر نذیر احمد چوہدری ایڈووکیٹ’ اللہ وسایا بلوچ ایڈووکیٹ و سابق نائب تحصیلدار’ چوہدری صفدر آف ساندہ ایڈووکیٹ و دیگر نے مطالبہ کیا ہے کہ نشتر ٹائون لاہور کے کرپٹ افسران ٹی او پی خالد رشید اور میاں عاصم کو نوکری سے برخاست کیا جائے اور ان کو عبرتناک سزا دی جائے۔