مہتاب رتیں آئیں تو کیا کیا نہیں کرتیں اس عمر میں تو لڑکیاں سویا نہیں کرتیں کچھ لڑکیاں انجامِ نظر ہوتے ہوئے بھی جب گھر سے نکلتی ہیں تو سوچا نہیں کرتیں یاں پیاس کا اظہا رملامت ہے گناہ ہے پھولوں سے کبھی تتلیاں پوچھا نہیں کرتیں آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تری یادیں […]
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر وحشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے آج اُس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر ان کے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے اپنی راہوں میں سلگتے ہوئے پتھر میں تری یاد کو یوں دل میں لیے پھرتا ہوں […]
ہے وہی آسماں، زمین وہی ماہ و انجم اسی طرح روشن کہکشاں اب بھی مسکراتی ہے پھول کلیاں مہک رہی ہیں یونہی بعد مدت کے سارے پردیسی اپنے اپنے گھروں کو آئے ہیں ہر طرف رنگ و بو کا میلہ ہے اور تنہا میں اپنے کمرے میں کب سے بیٹھی ہوں اور سوچتی ہوں جانے […]
دل میں پھر درد ہوا دیر تلک نہ ملی اس کو دوا دیر تلک میں نے خوشبو کی حقیقت پوچھی پھول خاموش رہا دیر تلک تم نے تو صرف سنا ہی ہو گا میں نے جو درد سہا دیر تلک شب کو پھر میں نے سلگتا پایا من کا خاموش دیا دیر تلک اس نے […]
اب کے پھولوں نے کڑی خود کو سزا دی ہو گی راہ گلشن کی خزائوں کو دکھا دی ہو گی جب وہ آیا تو کوئی در، کوئی کھڑکی نہ کھلی اس نے آنے میں بہت دیر لگا دی ہو گی جا! تیری پلکوں پہ برسات کا موسم ٹھہرے بادلوں نے مری آنکھوں کو دعا دی […]
لب پہ نہ لائے دل کی کوئی بات اُسے سمجھا دینا میں تو مرد ہوں اور وہ عورت ذات اُسے سمجھا دینا سکھیاں باتوں باتوں میں ‘احوال’ یقیناً پوچھیں گی کرے نہ کوئی اسی ویسی بات اسے سمجھا دینا چلتے پھرتے باتیں کرتے، بے حد وہ محتاط رہے چھوٹے شہر بھی ہوتے ہیں دیہات اسے […]
اے موت تمہیں بھلائے زمانے, گزر گئے آ جا کہ زہر کھائے زمانے گزر گئے او جانے والے آ کہ تیرے انتظار میں رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ اُمید ہے نہ یاس سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے کیا لائق ستم بھی نہیں اب میں […]
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں چمکے نہیں نظر […]
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا قریب تر رہا تھا بطوں کا اک جوڑا میں آبِ جو کے کنارے اُداس بیٹھا تھا شبِ سفر تھی، قبا تیرگی کی پہنے […]
یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے تیرے بغیر کانٹوں کا بستر لگے مجھے دیوار و در کے ساتھ دیچے بھی ہیں مگر ہر شخص تیرے شہر کا بے گھر لگے مجھے پھینکے جو تو نے پھول کسی کے خیال میں میرے ندیم تیر وہ اکثر لگے مجھے منزل کے پاس لٹتے ہوئے دیکھے […]
آگ جب تک جلے نہ جانوں میں آنچ ڈھلتی نہیں ترانوں میں وعدہ یار جاں فزا ہے مگر پھول کھلتے نہیں چٹانوں میں خواب کے نرم تار کیا ٹوٹے تیر بھی مڑ گئے کمانوں میں آدمی بھی تو کیڑیوں کی طرح بٹ گئے تنگ تنگ خانوں میں نسل نو کو سدھار نے کے لیے مدرسے […]
مے خانہ تو ہے ایک مگر جام بہت ہیں اے جلوئہ جانا ترے نام بہت ہیں کانٹوں سے زیادہ رہی پھولوں پہ توجہ شبنم پہ طرف داروں کے الزام بہت ہیں شہروں کی خصوصی پھبن انعام ہے ان کا وہ لوگ گلی کوچوں میں جو عام بہت ہیں مجھ کو نہ عطا کر ابھی آرام […]
دوستوں کے ہوبہو پیکر کا اندازہ لگا ایک پتھر کے بدن پر کانچ کا چہرہ لگا دیکھنے والی نگاہوں میں اگر تضحیک ہے کون کہتا تھا بھرے بازار میں میلہ لگا خواہشوں کے پیڑ سے گرتے ہوئے پتے نہ چُن زندگی کے صحن میں اُمید کا پودا لگا تیرے اندر کی خزاں مایوس کر دے […]
موت جب آئی تو گھر میں جاگتا کوئی نہ تھا بے حسی کا اس سے بڑھ کر واقعہ کوئی نہ تھا کوئی بھی چارہ نہیں تھا آگے جانے کے سوا جب بھی مڑ کر دیکھتے تھے راستہ کوئی نہ تھا مجھ کو ایسے پیڑ سے پھل پھول کی اُمید تھی جس کی شاخوں پر ابھی […]
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا وہ کیا منزل جہاں راستے آگے نکل جائیں سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا لہو دینے لگی […]
کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے کہاں یہ بیلچوں والے تگاریوں والے کبھی مچان سے نیچے اُتر کے بات کرو بہت پُرانے ہیں قصے شکاریوں والے مجھے خبر ہے کہ میں سلطنت کا مالک ہوں مگر بدن پہ ہیں کپڑے بھکاریوں والے غریب قصوں میں اکثر دکھائی دیتے ہیں نئے شوالے، پرانے پجاریوں والے […]
وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے جب درد سے رُک جائیں گی سب زیست کی راہیں اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو میری آہیں چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی شاید مری اُلفت کو […]
جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو فروغِ نور ہو جس سے فضائے رنگیں ہو خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو بہار نے جس خونِ جگر سے پالا ہو وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے اجل کی آنکھ فقط […]
وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی مہک میں چمپا کلی، روپ میں چنبیلی ہوئی وہ سرد رات کی برکھا سے کیوں نہ پیار کروں یہ رُت تو ہے مرے بچپن کی ساتھ کھیلی ہوئی زمیں پہ پائوں نہیں پڑ رہے تکبر سے نگارِ غم کوئی دُلہن نئی نویلی ہوئی وہ چاند […]
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے قسمت میں مری، صلہ نہیں ہے بچھڑے تو نجانے حال کیا ہو جو شخص ابھی ملا نہیں ہے جینے کی تو آرزو ہی کب تھی مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے جو زیست کو معتبر بنا دے ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے خوشبو کا حساب ہو چکا ہے […]
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے زخمی تھا بہت پائوں مسافت بھی بہت تھی سب دوست مرے منتظر پردئہ شب تھے دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی بارش کی دعائوں میں نمی […]
قریئہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے وہ میرے گھر کے در و بام سجانے آئے اس سے ایک بار تو روٹھوں میں اس کی مانند اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے اسی کوچے میں کئی اس […]
اس نے میرے ہاتھ میں باندھا اُجلا کنگن بیلے کا پہلے پیار سے تھامی کلائی بعد اس کے ہولے ہولے پہنایا گہنا پھولوں کا پھر جھک کر ہاتھ کو چوم لیا! پھول تو آخر پھول ہی تھے مرجھا ہی گئے لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں بانہوں پر وہ لمس […]
ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو! کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو! گلابی پائوں مرے چمپئی بنانے کو کسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اُگائی ہو! کبھی تو مرے کمرے میں ایسا منظر […]