یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ

یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ

یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری یا مردِ قلندر کے اندازِ ملوکانہ یا حیرت فارابی، یا تاب و تبِِ رومی یا فکرِ حکیمانہ، یا جذبِ کلیمانہ یا عقل کی روباہی، یا عشق ید الٰہی یا حیلئہ افرنگی، یا حملئہ […]

.....................................................

ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں

ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں

ابھی کچھ پل ہمارے ہاتھ میں ہیں کون جانے کونسا لمحہ ہمارے ہاتھ سے پھسلے، گرے اور پائوں کی زنجیر ہو جائے ابھی یہ دن جو لگتا ہے کہ ہم اک دوسرے کیساتھ رہ سکتے ہیں پل دو پل نجانے کب کہاں دیوار بن جائیں ابھی دو چار سانسیں بچ رہی ہیں یہ تو جھونکا […]

.....................................................

وہ بے ارادہ سہی، تتلیوں میں رہتا ہے

وہ بے ارادہ سہی، تتلیوں میں رہتا ہے

وہ بے ارادہ سہی، تتلیوں میں رہتا ہے کہ میرا دل تو مری مٹھیوں میں رہتا ہے میں اپنے ہاتھ سے دل کا گلا دبا دوں گی مرے خلاف یہی سازشوں میں رہتا ہے اڑان جس کی ہمیشہ سے جارحانہ رہی وہ آج میری طرح بے پروں میں رہتا ہے الائو بن کے دسمبر کی […]

.....................................................

سمجھ میں کچھ نہیں آتا

سمجھ میں کچھ نہیں آتا

ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھائوں میں رہنا تھا کس دل میں اترنا تھا چمکنا تھا کن آنکھوں میں کہاں پر پھول بننا تھا تو کب خوشو کیصورت کوئےجاناں سے گزرنا تھا سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہمیں کس قریہ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا کہاں شامیں گزرنا تھیں کہاں مہتاب راتوں میں […]

.....................................................

پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر

پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر

پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر وحشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے آج اُس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر ان کے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے اپنی راہوں میں سلگتے ہوئے پتھر میں تری یاد کو یوں دل میں لیے پھرتا ہوں […]

.....................................................

ریت اور ہاتھ

ریت اور ہاتھ

خواب سارے بکھر گئے وہ جو رات تھی وہ ڈھل چکی جو شام تھی وہ اُتر چکی اب اندھیرا مرے نصیب کا وہ اُجالا صبحِ قریب کا وہ کیا ہوا؟ کہاں کھو گیا؟ اب گئے دنوں کا خمار ہے وہی آس ہے وہی پیاس ہے وہی خواب ہے وہی ریت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہاتھ ہے یوں […]

.....................................................

ہوا کے ہاتھ ایک پیغام

ہوا کے ہاتھ ایک پیغام

اے ہوا اُسے کہنا بہت ہی دور کہیں ڈھلتی چاندنی میں اکیلا بیٹھا کوئی ایک تصویر سے باتیں کیا کرتا ہے امجد شیخ

.....................................................

کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی گماں گزرتا ہے، یہ شخص دوسرا ہے کوئی ہوا نے توڑ کے پتا زمیں پہ پھینکا ہے کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی درخت راہ […]

.....................................................

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گرے ایسی دہشت تھی فضائوں میں کھلے پانی کی آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گرے مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سائیہ دیوار پہ دیوار گرے تیرگی چھوڑ گئے […]

.....................................................

جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم

جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم

جب تک زمیں پہ رینگتے سائے رہیں گے ہم سورج کا بوجھ سر پر اٹھائے رہیں گے ہم کھل کر برس ہی جائیں کہ ٹھنڈی ہو دل کی آگ کب تک خلا میں پائوں جمائے رہیں گے ہم جھانکے گا آئینوں سے کوئی اور جب تک ہاتھوں میں سنگ ریزے اٹھائے رہیں گے ہم اک […]

.....................................................

ہم ‘نیوٹرل’ ہیں خارجہ حکمت کے باب میں

ہم ‘نیوٹرل’ ہیں خارجہ حکمت کے باب میں

ہم ‘نیوٹرل’ ہیں خارجہ حکمت کے باب میں ”نہ ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہیں رکاب میں” یوں کانپتا ہے شیخ خیالِ شراب سے جیسے کبھی یہ ڈوب گیا تھا شراب میں اس بات پر بھی ہم نے کئی باب لکھ دئیے جو بات رہ گئی تھی خدا کی کتاب میں تنقید جام و […]

.....................................................

اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی

اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی

اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی خدا جانےگریباں کس کے ہیں اورہاتھ کس کے ہیں اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آئوں بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی خیالوں میں ہمیشہ […]

.....................................................

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا لوگوں کا اک ہجوم ادھر ٹوٹ کر گرا ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا جیسے مری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا اتنی داستان ہے میرے زوال […]

.....................................................

ایک بیکار آنسو کی صورت گرے

ایک بیکار آنسو کی صورت گرے

ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا اور بارود کی دھڑکنوں کے سہارے جیے خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے ایک شعلہ بنے تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے بے حسوں کی حفاظت رہے خواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیں رقص جاری رہیں تاکہ محلوں کے آقا کے دربار میں ایک تالی […]

.....................................................

موضوعِ سُخن

موضوعِ سُخن

گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام دھل کےنکلےگی ابھی چشمئہ مہتاب سےرات اور مشتاق نگاہوں کی سُنی جائے گی ان ہاتھوں سے مس ہونگے یہ ترسے ہوئےرات انکا آنچل ہے، کہ رُخسار، کہ پیراہن ہےپیراہن, کچھ تو ہےجس سےہوئیجاتی ہےچلمن رنگیں جانے اس زُلف کی موہوم گھنی چھائوں میں ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ […]

.....................................................

ہمت التجا نہیں باقی

ہمت التجا نہیں باقی

ہمت التجا نہیں باقی ضبط کا حوصلہ نہیں باقی اِک تری دید چھن گئی مجھ سے ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ میں نہیں یا وفا نہیں باقی تیری چشمِ اَلم نواز کی خیر دل میں کوئی گلہ نہیں باقی ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال زندگی […]

.....................................................

اُلجھن

اُلجھن

رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے، سوچ رہی ہوں ان کو تھاموں زینہ زینہ سناٹوں کے تہہ خانوں میں اُتروں یا اپنے کمرے میں ٹھہروں چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے ! پروین شاکر

.....................................................

کنگن بیلے کا

کنگن بیلے کا

اس نے میرے ہاتھ میں باندھا اُجلا کنگن بیلے کا پہلے پیار سے تھامی کلائی بعد اس کے ہولے ہولے پہنایا گہنا پھولوں کا پھر جھک کر ہاتھ کو چوم لیا! پھول تو آخر پھول ہی تھے مرجھا ہی گئے لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں بانہوں پر وہ لمس […]

.....................................................

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو! کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو! گلابی پائوں مرے چمپئی بنانے کو کسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اُگائی ہو! کبھی تو مرے کمرے میں ایسا منظر […]

.....................................................

کوئی شام گھر بھی رہا کرو

کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی […]

.....................................................

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی خوش ہوں کہ وقتِ قتل مرا رنگ سرخ تھا میرے لبوں پہ حرفِ دعا کی لکیر تھی میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی سورج کو جس نے […]

.....................................................

کیا ہے جسے پیار ہم نے زندگی کی طرح

کیا ہے جسے پیار ہم نے زندگی کی طرح

کیا ہے جسے پیار ہم نے زندگی کی طرح وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح بڑھا کے پیاس میری اس نے ہاتھ چھوڑ دیا وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور تاریکی چھپے گا وہ کسی بدلی میں چاندنی کی طرح کبھی […]

.....................................................

گلابوں سے مہکی لڑی ہو گئی ہوں

گلابوں سے مہکی لڑی ہو گئی ہوں

گلابوں سے مہکی لڑی ہو گئی ہوں محبت کی پہلی کڑی ہو گئی ہوں مجھے تو نے ایسی نگاہوں سے دیکھا کہ میں ایک پل میں بڑی ہو گئی ہوں سر شام آنے کا ہے اس کا وعدہ میں صبح سے در پر کھڑی ہو گئی ہوں نہ چھڑوا سکو گے کبھی ہاتھ اپنا محبت […]

.....................................................

اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا

اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا

اب نظر آنا بھی اُس کا کہانی بن گیا وہ زمیں کا رہنے والا آسمانی بن گیا آج تک دل میں کوئی ٹھہرا نہیں اس کے بعد یہ مکاں بھی جانے والے کی نشانی بن گیا ڈوبتا ہی جا رہا ہے شہر میرے سامنے شام کا بادل بلائے ناکہانی بن گیا گونجتے ہیں لفظ خالی […]

.....................................................