طاہر انوار پاشا صاحب نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد دو عدد سفر نامے لکھ مارے ازبکستان اور ترکی میں پاشا دونوں ہی لاجواب ہیں وہ اس لیے کہ بچپن کے بعد میں نے آج تک کوئی کتاب ایسی نہیں پڑھی جسے ختم کیے بغیر چھوڑا ہواور ان دونوں کتابوں کا کمال دیکھیں کہ پڑھنے کے بعد مجھے ساہیوال میں گذرا ہوا ایک ایک پل یاد آگیاجہاں ایک گول چکر بھی ہے جسکے درمیان میں ایک خوبصورت مسجد اور مسجد کے مین دروازے کے باہر میرے ہی ایک کلاس فیلو افضل کے والد کی مٹھائی کی دوکان حمید سویٹ ہوا کرتی تھی جہاں شائد آجکل بیکری بن چکی ہے اور مسجد کے خطیب امام پیر منظور احمد شاہ صاحب تھے ( اس تحریر کے دوران ہی ساہیوال کے ایک دوست محمود سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پیر منظور احمد شاہ صاحب فانی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف کوچ فرماگئے اناللہ واناعلیہ راجیعون بہت نیک انسان اور اللہ کے ولی تھے )جن سے مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر انکے حجرہ میں شرف ملاقات اور دعائیں حاصل کرنے کے بعد دوست کی دوکان سے مفت میں مٹھائی وغیرہ کھاکر گولچکر لائبریری سے مظہر کلیم ایم اے کی عمران سیریز کرایہ پر لیکر گھر کی راہ لیتا اور جہاں وقت ملتا اسے پڑھنے کا موقعہ ہاتھ سے ضائع نہ کرتا تھا کیونکہ وہ ابھی سکول کا زمانہ تھا اور رسالے پڑھنے پر سخت پابندی ہوتی تھی مگر نہ جانے کیا نشہ تھا اس عمران سیریز میں کہ اسے پڑھے بغیر چین ہی نہیں آتا تھا۔
ایک دن یا دو دن میں وہ پورا رسالہ ختم ہو جاتا تھا اور اس رسالے کو پڑھتے ہوئے میں خود کو عمران ہی سمجھ رہا ہوتا تھا مدت ہوئے رسالوں اور کتابوں سے منہ موڑے ہوئے اگر کبھی کوئی کتاب شروع بھی کرلی تو اسے ختم کرنے میں ہفتے لگ گئے مگر طاہر انوار پاشا کی دونوں کتابیں مجھے پھر عمران سیریز کے دور میں واپس لے گئی جنہیں ختم کیے بغیر میں نے بھی نہیں چھوڑا کیونکہ انہیں لکھا اس انداز سے ہے کہ پڑھنے والا خود انہی جگہوں پر اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے دونوں کتابوں کے مصنف جناب طاہر انوار پاشا پولیس سے بطور ایڈیشنل آئی جی ریٹائر ہوئے ہیں اور پولیس والوں سے میری آج تک نہیں بنی اگر کوئی دوست پولیس میں آبھی گیا تو میرا تعلق ختم ہوجاتا تھا مجھے ہمیشہ کالی وردی سے نفرت ہی رہی نہ کبھی ان سے اپنا کوئی کام پڑا اور نہ ہی کسی دوست کی سفارش کی کیونکہ ہمارے نظام میں خرابی کی اصل جڑ یہی محکمہ ہے جہاں انکی کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ ہی انکے ہاں عوام کی کوئی عزت کی جاتی ہے آج اگر ہمارے معاشرے میں منشیات عام ہوچکی ہیں تو اسکی ذمہ داری بلا شبہ اسی محکمہ پر عائد ہوتی ہے۔
غریب کی شلوار قمیض اتار کر اسے الٹا لٹکایا جاتا ہے تو اسکے پیچھے یہی کالی وردی ہوتی تھی جاگیر دار ،سرمایہ دار اور وڈیرے قاتل ،ڈکیت اور رسہ گیر کو تھانے میں ابو جی کا درجہ دیا جاتا ہے تو اسکے پیچھے بھی یہی کالی وردی ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ اسی کالی وردی کے پیچھے چھپی نفرت کو کم کرنے کے لیے پچھلی حکومت نے اسکا رنگ تبدیل کردیا مگر اندر چھپے ہوئے بھیڑے کو کون تبدیل کرے ؟ مگر پولیس کے اندر چند ایک ہی شخصیات ہیںجن سے میں آج بھی ملتے ہوئے سکون محسوس کرتا ہوں جن سے ملاقات ختم ہونے سے پہلے اگلی ملاقات کا اشتیاق رہتا ہے ان میں طاہر انوار پاشا صاحب سر فہرست ہیں دوسرے نمبر پر اسراراحمد صاحب ہیں کیونکہ وہ بھی پولیس والے نہیں لگتے جب وہ ایڈیشنل آئی جی ہوا کرتے تھے اس وقت انکے دفتر میں اکثر گلوکار برادری کے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی اور گھنٹوں بیٹھنے کے بعد بھی ایک تشنگی سی باقی رہتی تھی میرے والد مرحوم غفور علی چوہدری میری پیدائش سے قبل ہڑپہ کے ایک قصبہ مرادکے کاٹھیہ میں سکول ٹیچر ہوا کرتے تھے اور وہیں پر انکے ہونہار شاگرجناب حافظ وریام علی صاحب اور مہر غلام فرید کاٹھیہ صاحب بھی ہواکرتے تھے جو والد صاحب کی خصوصی کاوشوں سے اپنی اگلی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
والد صاحب کی ٹراسفر ساہیوال میں ہوگئی جہاں ریٹائر منٹ کے بعد انہوں ایک پائپ فیکٹری لگا لی مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ22نومبر1982بروز بدھ کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور میں اس وقت گورنمنٹ پرائمری سکول جے برانچ(گوجر احاطہ ) میں تیسری جماعت کا طالبعلم تھااور ابو کے انہی ہونہار شاگرودں حافظ وریام صاحب ،مہر غلام فرید کاٹھیہ صاحب، مہر محمد شفیع کاٹھیہ ایڈوکیٹ صاحب، انکی بیگم اور چوہدری صدیق صاحب نے جس پیار، محبت اور خلوص کی ہم بہن بھائیوں پر چھاﺅں کیے رکھی وہ ناقابل یقین اور ناقابل فراموش ہے غلام فرید کاٹھیہ صاحب بعدمیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے اور وزیر مملکت بھی رہے جبکہ حافظ وریام صاحب گورنمنٹ کالج ساہیوال میں لیکچرر اور پھر پروفیسر بن کر ریٹائر ہوئے اور وہ بھی دنیا سے چلے گئے اللہ تعالی کروٹ کروٹ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے (آمین) 1990-94 میں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں جب پڑھا کرتا تھا تو دن میں ایک بار لازمی حافظ صاحب سے ملاقات ہوجاتی تھی اورپھر جس پیار اور محبت سے وہ میری آوارہ گردی پر ڈانٹا کرتے تھے وہ آج بھی یاد ہے اور گھر پر مجھے پڑھانے کے لیے ضرور بلاتے میں جب بھی طارق بن زیاد کالونی انکے گھر پڑھنے جاتا تو اور بھی لڑکے پڑھنے آئے ہوتے تھے مجھے حافظ صاحب اپنے بہت ہی پڑھاکو بیٹھے غفار بھائی کے حوالے کردیتے تھے جو انتہائی پیار اور محبت سے مجھے ایف اے کی انگلش کی تیاری کروایا کرتے تھے اور جب میں بی اے میں ہوگیا تو پھرحافظ صاحب کبھی کبھی مجھے شوکت بھائی کے حوالے کر دیا کرتے تھے جو آجکل محکمہ پولیس میں ڈی آئی جی ہیں اور غفار بھائی ساہیوال میں ہی ڈاکٹر بن کر عوام کی خدمت کر رہے ہیںشوکت عباس سے رشتہ بہت ہی پیاراور محبت والا ہے اور جب وہ پولیس میں آگئے تو ایک بار میں ان سے ملنے پتوکی گیا تو چائے کے آنے سے پہلے ہی میں نے اجازت چاہی تو مذاق میں انہوں نے کہا کہ پولیس سے ڈر لگتا ہے کیا بیٹھو ابھی اسرار صاحب کے بعد شوکت عباس صاحب ایسے پولیس والے ہیں جن سے بار بار ملنے کو دل کرتا ہے۔
انکے بعد خرم شکور صاحب ہیں جن سے میری پہلی ملاقات ساہیوال میں ہی ہوئی تھی جب وہ اے ایس پی تھے وہ بھی پولیس والے کم لگتے تھے جن سے پیار محبت کا رشتہ آج تک قائم ہے انکے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتا نہ کبھی کسی کے پاس گیا ہوں نہ جانے کو دل کرتا ہے مگر طاہر انوار پاشا صاحب سے ایک بار ملنے کے بعد بھی دل کرتا ہے کہ ان سے دوبارہ ملاقات جلد ہو کیونکہ وہ پولیس میں رہتے ہوئے بھی پولیس والے نہیں لگتے تھے اصل میں انکے اندر ایک حساس اور محبت بھرا دل دھڑکتا ہے اور رہی سہی کسر اس لکھاری نے پوری کردی جو انکے اندر چھپا بیٹھا تھا جو انکی ریٹائرمنٹ کے بعد کھل کر سامنے آگیا یہ انکی دو کتابوں ازبکستان اور ترکی میں پاشا کا ہی کمال ہے کہ مجھے اپنا بچپن اور بچپن کا گذرا ہوا ایک ایک پل یاد کروادیا کیونکہ جب میں نے ان دونوں کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو پھر ختم کیے بغیر نہیں چھوڑا انکے لفظوں کی مالا میں اپنے گلے میں لٹکائے کبھی افراسیاب ٹرین سے 30ہزار سم میں آلو کے چپس خرید رہا تھا تو کبھی آرک قلعہ کے نقش ونگار میں کھو کر افراسیاب کی بیٹی کے عشق کی داستان کو کسی فلم کی طرح پردہ سکرین پر دیکھ رہا تھا اور خاص کر وہاں بیٹھ کر پاشا صاحب نے ملتان کی جو یاد تازہ کردی وہ بھی ایک داستان ہے کیونکہ مجھے ملتان میں گذرا ہو وقت بھی یاد آگیا مگر نہیں لکھوں گا کیونکہ جگہ کم ہے خاص کر ازبکستان کے پورے سفر نامہ کو پڑھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بخارا کلچرل شو ،مقبرہ امیر تیمور ،مزار حضرت امام بخاری ،افرسیاب کے کھنڈرات اور میوزیم ،افسانوی پراسرارعشرت خانہ ،بابری ہاﺅس اور جامی مدرسہ کی سیر کرتے وقت دل آرام میرے ہی ساتھ ساتھ رہی یہ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے اتنی خوبصورتی سے الفاظ کا چناﺅ کیا کہ پڑھنے والاحیرت کا مجسمہ خوبصورت اشیا ءکو اپنے اردگرد ہی محسوس کرتا ہے۔
جبکہ کھانے کی ٹیبل پر ڈانس اور تھرکتے جسم سے نکلنے والے سانس کا لمس مجھے اپنے سانسوں سے ملتا ہوا محسوس ہونے لگا تھااسی طرح پاشا صاحب کا دوسرا سفر نامہ ترکی میں پاشا بھی کسی حیرت سے کم نہیں ہے اور اپنی ایک صفت کا اظہار انہوں نے ائر پورٹ پر ہی کردیا کہ باغیانہ خیال اصل میں یہی انکا باغی پن تھا جسکی بدولت وہ پولیس والے ہوتے ہوئے بھی پولیس والے نہیں لگتے اور انہوں نے اپنے اندر کے لکھاری کو مرنے نہیں دیا وہ لکھاری جو بچپن سے انکے ساتھ تھا کالج کے میگزین میں ساتھ تھا اور اب قدم سے قدم ملا کر دنیا کی سیر کروا رہا ہے ترکی میں پاشا جب میں پڑھ رہا تھا تو بہت سی جگہوں پر مجھے اپنے ساتھ بہت سی وابستہ یادیں بھی یاد آئی جو میں نے کالم کی لمبائی کی وجہ سے نہیں لکھی مگر ایک یاد مجھے مجبور کررہی کے یہ لازمی لکھوں پاشا صاحب نے درویش رقص میں لکھا کہ مولانا روم کے مزار پر درویش رقص صرف آرٹ کے طور پر سرکاری سرپرستی یا تحریری اجازت سے ہی کیا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان میں جہاں اور جب آپکا دل کرے آپ دھمال ڈال سکتے ہیں آج سے کوئی چار سال قبل میرا ایک دوست افتخار اخلاقی مجھے بابا نوری بوری سرکار کے عرس پر شیخوپرہ روڈ پر لے گیا وہاں جب محفل اپنے عروج پر پہنچی تو سبھی دھمال ڈال رہے تھے۔
مجھے چونکہ ناچ گانا نہیں آتا اس لیے ان چیزوں سے ہمیشہ دور ہی رہا ہوں مگر افتخار اخلاقی نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے بھی پنڈال میں کھینچ لیا ابھی ایک دو الٹے سیدھے ہاتھ ہی چلائے تھے کہ مجھے اپنی پینٹ کی پچھلی جیب خالی خالی سی محسوس ہوئی جب ہاتھ لگا کر دیکھا تو کوئی ملنگ دھمال ڈالتے ڈالتے میری جیب پر ہی ہاتھ صاف کرگیا جسکے بعد سے لیکر آج تک میں نے توبہ کرلی اور ترکی میں خوامخواہ کی دھمال پر پابندی ایک اچھا فیصلہ ہے جبکہ طاہر انوار پاشا نے اردغان کے دور اقتدار کو جس سنہری انداز میں پیش کیا وہ بھی قابل تعریف ہے کہ انکے دور میں یونیورسٹیوں کی تعداد دگنی ہوگئی اور ہمارے ہاں ایک بھی یونیورسٹی کا اضافہ نہیں ہوا الغرض سفر کے شوقین افراد کے لیے یہ دونوں کتابیں کسی بھی طرح ایک گائیڈ سے کم نہیں ہیں جنہیں پڑھ کر اچھی خاصی رہنمائی لی جاسکتی ہے اور جو میرے جیسے کبھی گھر سے نہیں نکلے وہ بھی باہر کے ملکوں کی سیروتفریح کا بھر پور مزالے سکتے ہیں رہی بات طاہر انوار پاشا صاحب کی وہ خود بھی پیارے اور پیار کرنے والے ہیں انکی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہر جگہ پر اپنی بیگم کو اپنے ساتھ ہی رکھا جو گھر والوں کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ نہیں کرتا وہ دنیا میں کسی کے ساتھ بھی کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کرسکتا اور یہی خوبی انکی سبھی خوبیوں پر بھاری ہے کہ وہ سچا اور حقیقی پیارکرتے اور بانٹتے ہیں ایسا شخص ہزاروں میں ایک ہوتا ہے۔