اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ پشاور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) طاہر داوڑ کے قاتل چاہے پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں، انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
واضح رہے کہ پشاور رورل کے ایس پی طاہر داوڑ اسلام آباد کے علاقے جی ٹین سے جمعہ 27 اکتوبر کو لاپتہ ہوئے تھے۔ جن کی لاش 13 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ملی اور پھر افغان حکام کی جانب سے تصدیق کے بعد گذشتہ روز پاکستانی دفترخارجہ نے ان کے قتل کی تصدیق کی۔
آج سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ طاہر داوڑ کا مسئلہ حساس تھا، لیکن ہم جوابدہ ہیں اور اس واقعے میں ملوث عناصر کو نشان عبرت بناکر کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ طاہر داوڑ 2 خودکش حملوں میں بچے، انہیں اس سے قبل بھی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں جبکہ ان کی بھابھی اور بھائی کو بھی شہید کیا جاچکا ہے۔
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ ’28 اکتوبر کو طاہر داوڑ کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر ان کے بھائی فرحان الدین احمد کی مدعیت میں اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں کاٹی گئی، جس کے بعد ان کی تلاش شروع ہوئی، لیکن تمام خفیہ اداروں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے یہی بات سامنے آرہی تھی کہ طاہر داوڑ سے رابطہ نہیں ہو رہا اور انہیں ٹریس کیا جا رہا ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ ’13 نومبر کو سوشل میڈیا پر جب تصاویر آئیں تو افغانستان اور پاکستان میں کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا، جس سے تصدیق ہوسکے اور پھر 14 نومبر کو افغان حکومت نے طاہر داوڑ کے قتل کی تصدیق کی’۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ ‘ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرکے پنجاب کے شہر میانوالی لے جایا گیا اور پھر وہاں سے بنوں کے راستے انہیں افغانستان لے جایا گیا’۔
شہریار آفریدی نے بتایا کہ ‘طاہر داوڑ کا آخری پیغام گھر والوں کے لیے یہ تھا کہ میں محفوظ ہوں، پریشان نہ ہوں’۔
وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ افغان حکومت کی جانب سے طاہر داوڑ کے قتل کی تصدیق پر وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، آئی جی کے پی اور آئی جی اسلام آباد سے انکوائری رپورٹ مانگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، کچھ عناصر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ‘افغان بارڈر سائیڈ پر پیٹرولنگ کا کوئی نظام نہیں ہے، جس پر افغان حکومت کو آگاہ کیا جاچکا ہے’۔
اس موقع پر شہریار آفریدی نے اسلام آباد میں سیف سٹی منصوبے کے تحت لگائے گئے کیمروں کی فعالیت پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ‘1800کے قریب کیمرے نصب کیے گئے لیکن کسی کیمرے میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ گاڑی کا نمبر یا کسی شکل کی تصدیق کرسکے’۔
انہوں نے سیف سٹی منصوبے کے تحت نصب کیے گئے کیمروں کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا، تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
سینیٹ اجلاس میں طاہر خان داوڑ کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا بھی کی گئی۔