تحریر : عنایت کابلگرامی موسم سرما آتے ہی گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی پاکستان کی سیاست میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی سب سے بڑی کینیڈا کے شہری طاہر القادی ہے، دسمبر ، جنوری اور فروری کے مہینے میں کینیڈا میں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے جو طاہر القادری صاحب کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے ، اس لئے وہ پاکستان اکر سیاسی گرمی کو بھر پور ہوا دیتے ہے ، تاکہ وہ خود بھی گرم رہے اور دوسروں کا بھی جینا حرام کرس کے۔ قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی ہے ،اس سال آخر میں انتخابات ہونے کے قوی امکان ہے ، موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت تین ماہ کے اندر الیکشن کرانے کی پابند ہوگی ، اب جوکے چند ماہ باقی ہے موجودہ حکومت کی اور انتخابات بھی سر پر ہے ، تو ایسی صورت حال میں حکومت ختم کرنے کا کوئی خاص جوازنظر نہیں آتا ہے ،
کینیڈا کے پاسپورٹ ہولڈر خود ساختہ شیخ الاسلام طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹائون کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست کو گرمانا چاہتے ہے ، وہ نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی جب کے ان کی فیملی بشمول ان کے داماد کے خلاف نیب ریفرنسز اور دیگر مقدمات کے تناظرمیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ اب حکومت کو گرانے میں تمام سیاسی جماعتیں اور عوام ان کے شانہ بشانہ ہونگے اور اس کے لئے بھر پور تحریک چلانے اور تمام اپوزشن جماعتوں کو متحدکرکے خود بڑے لیڈر بننے کے خواب اپنی آنکھوں میں سماگئے، اس مقصدکو عملی جامہ پہنانے کے لئے بدھ 17جنوری کو لاہور کے سب سے مصروف شاہرہ مال روڈ پر ان تمام جماعتوں کا جو ان سے متفق تھے ان کے ساتھ مل کر حکومت گرانے کے لئے ایک جلسے کا اہتمام کیا ، کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ رابطے کئے گئے اور ان کو خطاب کی دعوت دی گئی ، ان میں کئی جماعتیں شریک بھی ہوئی اور ان کے زمہ داروں نے خطاب بھی کیا ، حیران کرنے والی بات یہ تھی کے جلسہ گاہ میں لگی ہوئی ہزاروں کرسیوں میں سے آدھی کرسیاں خالی پڑی تھی ، مختلف اندازوں کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنان کے ہمراہ آمد رفت کے ساتھ حاضرین تعداد کم و بیش ہوتی رہی ۔ عمران خان کی خطاب کے دوران مجمع پندرہ ہزار تک پہنچ چکا تھا ۔ گویا ہر جماعت جن میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ( پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف )بھی شامل تھی اوسطاََصرف پندرہ سو آفراد لانے میں کامیاب ہوئی۔
جلسہ گاہ میں تقریر کے دوران چار اہم مقررین اپنے تقریروں میں جو کچھ کہا اور جو بازاری زبان استعمال کی ، اس پاکستانی سیاست اور پاکستانی سیاست دان شرما جائے ۔ شیخ رشید صاحب جن کا شائد ایک بھی عام کارکن اس جلسے میں شامل نا ہو ، اس نے پارلیمان پر ہزار بار لعنت بھیج کر استعفے کا اعلان کیا ، اور آج بغیر استعفیٰ دئیے دبئی میں جا بیٹھا ہے ، عمران خان صاحب نے بھی شیخ رشید کے جذبات کو سرہا اور انہونے بھی پارلیمان پر خوب لعنتیں بھیجی، مگر استعفیٰ نہیں دیا ، کیوں کہ استعفیٰ کی صورت میں ان کو خیبر پختون خواء کی حکومت سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ، جونکہ عام تاثر یہ تھا کہ طاہر القادری صاحب نے زرداری و عمران کو راضی کیا ہے کہ وہ مال روڈ پر ہونے والے جلسے میں اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں کی حکومت ختم کر کے سینٹ کے الیکشن کو روکے نگے اور ساتھ ہی حکومت ختم ہونے کے لئے دبائو بھی بڑ جائیگا۔
اس فلپ شو کا سب سے اہم پہلوجو سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لئے مقرر کیئے گئے جلسے میں مقررین خود ہی مستعفی ہونے کا اعلان کرگئے ، جلسے میں شرکا کی تعداد کے بارے میں میڈیا پر عجیب و غریب باتیں گردش کرتی رہی کہ ” اسٹیج پر قائدین کا ہجوم اور پنڈال حاضرین سے خالی ”وغیرہ وغیرہ ، جلسے سے قبل طاہر القادری نے یہ اعلان کیا تھا میں عمرا ن خان اور آصف علی زداری کو ایک ساتھ اسٹیج پر بیٹھائینگے، مگر وہ اس میں یکسر ناکام نظر آئیںاور اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے جلسے کو دو حصوں میں تقسیم کیا پہلے حصہ میں آصف علی زداری صاحب اپنے کارکنان کے ہمراہ تشریف لائے ، خطاب کیا خصوصی خطاب خود ساختہ شیخ الاسلام نے کیا ، دوسرے حصے میں عمران خان صاحب اپنے کارکنان کے ہمراہ نمودار ہوئے ، عمران خان جلسے میں لوگوں کی کم تعداد دیکھ کر کافی پریشان نظر آرہے تھے ، طاہرالقادری صاحب بھی فلاپ شو پر آگ بگولانظر آرہے تھے ، اس لئے دو بار خطاب بھی کیا مگر حاضرین کی تعداد بڑانے میں ناکام رہے۔
تمام مقررین نے طاہر القادری کے فلاپ شو میں دوران خطاب حکومت اور پارلیمان پر خوب لعن وتان کرتے ہوئے نظر آئے ، سب نے شرافت شائستگی اور اخلاق کے تمام حدود کوپار کرتے ہوئے موجود حکمرانوں اور شریف خاندان کو خوب مغلظات سے نوازا، ان کو تکا بوٹی کپڑے تار تار کرنے کی دھمکیاں بھی دی ، زرداری صاحب نے کہا کہ میں جب چاہوں حکومت کو گھر بھیج دوں۔ طاہر القادری جو ہر سال سردیوں کے مہینوں میں کینیڈا سے پاکستان تشریف لاتے ہے ، اور کسی نا کسی طرح پاکستان کی سیاست میں خود کو انٹر رکھنے کی کوشش کرتے ہے ، وہ اس سال بھی ماڈل ٹائون سانحہ کو بنیاد بناکر خود کو میڈیا اور سیاست میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں، بلاشبہ ماڈل ٹائون کا سانحہ افسوس ناک ہے جو قمتی جانیں ضائعہوئی ان کا دکھ سب کو ہے ، مگر طاہر القادری صاحب ان کے انصاف کے لئے نہیں اپنی سیاست کے لئے یہ جلسے جلوس اور دھرنے کر رہے ہیں ، اگر ان کا مقصد انصاف کو ہوتا تو کب کا انصاف مل جاتھا ۔ ماڈل ٹائون میں قتل عام کی جتنی زمہ داری پنجاب حکومت کی تھی اتنی ہی طاہر القادری صاحب کی بھی تھی ، ہر سیاسی و مذہبی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مظاہرے کے دوران اپنے مظاہرین کو پولیس یا دیگر اہلکاروں سے نا الجھائے اور ایسی صورت حال ہر گز نا پیش آئے کہ مظاہرین اور پولیس میں ٹکرائو ہو، ماڈل ٹائون میں طاہر القادری صاحب اور اس کی جماعت اس میں مکمل ناکام نظر آئی۔
طاہر القادری صاحب فلاپ شو کرنے کے بجائیں اپنے جلسے جلوس و دھرنوں میں خرچ کئے جانے والے رقم سے ان لوگوں کی مدد کریں جن کے پیارے ماڈل ٹائون میں پولیس گردی کا شکار ہوئے تو اس سے ان کا کافی بلا ہوگا ناکہ مظاہروں و دھرنوں سے۔ اللہ ہی ہمیں سمجھ عطا کریں ( آمین)