تائیوان (اصل میڈیا ڈیسک) تائیوان کے حکام کا کہنا ہے کہ درجنوں چینی جنگی طیارے اس کی فضائی حدود میں ایک بار پھر داخل ہو گئے۔ تائیوان نے بھی جواباً ان طیاروں کو گھیرنے کے لیے اپنے جنگی جہاز بھیجے اور اپنے میزائل دفاعی نظام کو فعال کر دیا۔
تائیوان نے 23 جنوری اتوار کے روز اپنے جنوب مغربی فضائی ڈیفنس علاقے (اے ڈی آئی زیڈ) میں 39 چینی جنگی طیاروں کو ایک ساتھ داخل ہونے کی اطلاع دی، جس میں ایک بمبار طیارہ بھی شامل تھا۔ اس تازہ ترین پیش رفت پر بیجنگ کی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔
اس جزیرے پر ‘ایئر ڈیفینس آئیڈینٹیفیکشن زون’ (اے ڈی آئی زیڈ) کوئی عام فضائی حدود نہیں بلکہ خود ساختہ طور پر اعلان کردہ ایک فضائی حدود ہے جس کی قومی سلامتی کے مقاصد کے تحت نگرانی کی جاتی ہے۔
چین تائیوان کو اپنا ہی ایک علاقہ سمجھتا ہے اور اس نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ طاقت کے ذریعے بھی اس جزیرے کا اپنے ملک میں انضمام کر سکتا ہے۔
تائیوان کا کیا کہنا تھا؟ تائیوان جزیرے کی وزارت دفاع نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ اس در اندازی میں 34 جنگی طیارے کے ساتھ ایک ایچ 6 بمبار طیار بھی شامل تھا۔ وزارت دفاع کے حکام نے ان جنگی طیاروں کے پرواز کے راستوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر، جو آن لائن بیان پوسٹ کیا ہے، اس کے مطابق چینی طیاروں نے تائیوان کے زیر کنٹرول پراٹاس جزیرے کے شمال مشرق کی جانب پرواز کیا۔
وزارت دفاع نے ٹویٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ اس کے جواب میں، تائیوان نے بھی اپنے جنگی طیاروں کو ان کا پیچھا کرنے لیے بھیجا اور ریڈیو وارننگ نشر کرتے ہوئے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے اپنے فضائی دفاعی میزائل سسٹم کو فوری طور پر تعینات کیا۔
امریکا کا موقف کیا ہے؟ اے ڈی آئی زیڈ علاقے میں گزشتہ اکتوبر میں ایک ساتھ تقریباً 56 جنگی طیاروں نے در اندازی کی تھی جس کے بعد سے اپنی نوعیت کا یہ اب تک کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔
تائیوان چینی فضائیہ کے ذریعہ اپنے علاقوں میں، عام طور پر پراٹاس جزائر کے قریب جنوب مغربی حصے میں، جس پر اس کا کنٹرول ہے، کئی ماہ سے در اندازی کی شکایت کرتا رہا ہے۔ جزیرے کے دفاعی حکام بیجنگ پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ تائیوان کی فوج پر دباؤ بڑھانے کے لیے ”گرے زون” کے حربے استعمال کر رہا ہے۔
چین کے ساتھ ایک دیرینہ سمجھوتے کے تحت واشنگٹن ”ون چائنا” یعنی متحدہ چین کی پالیسی پر قائم ہے۔ اس سیاسی موقف کے مطابق امریکا سرکاری سطح پر تائیوان کے دارالحکومت تائی پی کو تسلیم کرنے کے بجائے تمام معاملات بیجنگ سے طے کرنے کا پابند ہے۔لیکن واشنگٹن کا تائیوان کے بجائے بیجنگ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ اس موقف سے مشروط بھی ہے کہ تائیوان کا مستقبل پرامن طریقے سے طے کیا جائے گا۔
تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے لیکن چین اسے اپنے ملک کا ہی ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دنوں تائیوان کے”مکمل انضمام” کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ چین نے تائیوان کے دوبارہ انضمام کے حصول کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا۔
خیال رہے کہ چین اور تائیوان سن 1940 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران منقسم ہو گئے تھے تاہم چین کا اصرار ہے کہ یہ جزیرہ اس کا اپنا حصہ ہے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو انضمام کے لیے طاقت کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تائیوان کا اپنا آئین ہے اور یہاں جمہوری طورپر رہنماؤں کا انتخاب ہوتا ہے۔ البتہ صرف چند ممالک ہی تائیوان کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکا کا تائیوان کے ساتھ کوئی سرکاری تعلق نہیں ہے۔
خطے میں چین کی فوجی سرگرمیاں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا باعث بھی ہیں۔ اس کی وجہ سے امریکا نے ہند-بحرالکاہل میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔