تحریر: ممتاز ملک۔ پیرس پچھلے دنوں اپنی بہت ہی پیاری دوست معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا کی بھارت یاترا کی دلچسپ کہانی ہڑھتے ہوئے ان کی تصاویر کئی یادگار مقامات پر دیکھتے ہوئے بہت سے جذبوں نے سر اٹھایا، خاص طور پر تاج محل کو دیکھ کر اسکے تعمیر کروانے والے شہزادہ خرم المعروف شہنشاہ ہند شاہجہاں اور انکی بیگم ارجمند بانو المعروف ملکہ ہندوستان ممتاز محل کے عشق کی داستان کے بارے میں ایک ایک پڑھا ہوا لفظ میرے ذہن کے گوشوں سے چیختا چنگھاڑتا ہوا مجھے جھنجھوڑتا ہوا میرے دماغ کی فصیلیں توڑتا ہوا محسوس ہوا۔
یہ کیسی محبت تھی جس میں ایک شہزادہ اپنی سوتیلی ماں جو کہ ملکہ وقت نور جہاں جیسی پاورفل عورت ہو سے لڑ کر اسی کے بھائی کی بیٹی سے محبت میں مبتلا ہوتا ہے اس سے ایک بڑے مقابلے کے بعد بیاہ رچاتا ہے۔ پھر اسے حاصل کرنے کے بعد اسے ہر سال ایک بچے کی پیدائش کی ذندگی اور موت کی اذیت سے گزارتا ہے۔ اس کے ساتھ کا شادی کے بعد کا عرصہ اس کی بیوی نے اس کی اولاد پیدا کرتے کرتے موت کو گلے لگا لیا۔
کہاں گئی وہ محبت ۔ جب اسے اولاد کا تحفہ دینے کے سوا شاید اسے اپنی اس محبوب بیوی سے بیٹھ کرکھل کر بات کرنا بھی نصیب نہیں ہوا ہو گا جب کہ وہ اس کی اکلوتی بیوی بھی نہیں تھی پھر بھی ممتاز محل مسلسل چودہ سال تک بچوں کی پیدائش کے اذیت ناک مرحلے سے دوچار رہی اور بلآخر چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران ہی اس دنیا سے چل بسی۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اس معصوم عورت کو کبھی ایک نارمل انسان کی طرح صرف ایک وجود کی طرح جینے کا حق بھی نہ دیا اور اسکی موت کے بعد کوئی ایسا فلاحی کام جس میں کوئی اور ایسی تکلیف سے نہ گزرے ،کرنے کی بجائے آج کا اربوں روپیہ لگا کر ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروا دیا۔
love
دوسرے لفظوں میں بتا دیا کہ محبت کا آخیر یہ مقبرہ ہی ہوا کرتا ہے اور مجبت کرنے والوں کی شادی بھی ہو جائے تب بھی اسے چین ایک قبر میں ہی آتا ہے ۔ یہ محبت کی یادگار ہے یا رہتی دنیا تک ایک عورت کے وجود کی نفی ہے یا ایک بادشاہ کی جانب سے دنیا کے دل میں اپنے اثاثوں کی دھاک بٹھانے کا ایک طریقہ ہے۔ کیا ہےیہ ؟ ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
محبت میں کسی کو پھانس چھبونا بھی خود پر تلوار چلنے جیسا لگتا ہے ۔ انسان ایک کی بات دوسرے سے کہے بنا سمجھ جاتا ہے ۔ایک کی غیر موجودگی میں اسکے میلوں دور ہوتے ہوئے بھی اسکے ساتھ کچھ اچھا یا برا ہو جانے کو محسوس کر لیتا ہے ، لیکن یہ کیسا بادشاہ محبت تھا جس نے اپنی بیوی کو کبھی زچگی کی تڑپ کے سوا کچھ نہ دیا۔
یہ اس کی محبت تھی یا اس عورت سے کوئی تاریخی بدلہ۔ کہ دیکھا کیسے ایک مرد تاحیات ایک عورت کو زندگی اور موت کے امتحان میں مبتلا کرتا ہے اور بعد میں ایک قاتل محبت کہلانے کے بجائے باشاہ محبت بھی کہلاتا ہے۔ اگر یہ محبت ہے تواللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس محبت سے محفوظ ہی ہیں کہ جس کا انجام کسی مقبرے کی صورت میں دنیا کے کلیجے پر کھڑا نظر آئے۔
جسے اس سنگی مقبرے میں جدائی کی تڑپ اور زچگی کے خوفناک عمر قید بخشی گئی ہو اسے مظلوم بھی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے بھی ایک قاتل بادشاہ کی خوش نصیب بیگم قرار دیا جائے۔ اُففففففففف کیسی بھیانک حقیقت ہے۔ میرا زہن اس سے آگے کچھ بھی سوچنے کی ہمت کرنے کو تیار نہیں۔ ارجمند بانو عرف ممتاز محل ایک شہید تھی اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی بیچارگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک ان کی روح کو سکون عطا فرمائے۔ آمین