تکبر کا مرض

Takabar ka Maraz

Takabar ka Maraz

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

انسان فطری طور پر خود پسندی میں جلدی مبتلا ہونے والا زی روح ہے یہی خود پسندی بڑھ کر جب غرور تکبر میں ڈھلتی ہے تو انسان کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہو جاتے ہیں ‘ تاریخ انسانی کا ورق ورق سطر سطر ایسے عبرتناک واقعات سے بھری پڑی ہے جب اِس مشتِ غبار کو خود پسندی کے بعد غرور اور تکبر کا دورہ اِس طرح پڑا کہ کرہ ارض پر اِس جیسا انسان نہ تو آیا اور نہ ہی آئے گا ‘دنیا کے ہر الہامی مذہب میں اِس مرض کو شدت سے منع کیا گیا ہے لیکن انسان عبرت یا اصلاح لینے کی بجائے اندھا دھند اِس گڑھے میں گر کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر لیتا ہے حالانکہ خدا ئے بزرگ و برتر نے سختی سے انسان کو اِس بیماری سے روکا ہے لیکن یہ مشت غبار سمجھنے کو تیا ر ہی نہیں ہے۔

آقا کریم ۖ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا راز ہے جو شخص اِن دونوں میں مُجھ سے نزاع کر ے گا میں اُس کو توڑ دوں گا’ ارشاد باری تعالیٰ ہے میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے دور رکھوں گا جو دنیا میں ناحق تکبر کر تے ہیں اور جو لوگ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور یہ لوگ انسانیت سے بہت دور نکل چکے ہیں ‘ محبوب خدا ۖ فرماتے ہیں وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ شخص دوزخ میں نہیں داخل ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ۔اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا اُسے اللہ تعالیٰ منہ کے بل دوزخ میں ڈالے گا۔

درج بالا سطور میں شدت سے غرور اورتکبر کی حوصلہ شکنی کی گئی لیکن آجکل جب آپ میڈیا اخبارات میں حکمرانوں اور اُن کے میراثیوں کے تکبر سے بھرے الفاظ اور چہرے دیکھتے ہیں تو یہی لگتا ہے کہ یہ پہلے اور آخری حکمران ہیں نہ اِن سے پہلے کوئی ان جیسا آیا اور نہ ہی آئندہ آئے گا ‘ میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا ‘ دن رات کام کو ئی نہیں صرف ایک پہاڑا پڑھتے نظر آتے ہیں ‘ گا گی گے اور کوئی کام نہیں ‘ کرہ ارض پر پیغمبروں کے بعد اولیا اللہ ہی خدا کے محبوب ترین بندے ہیں خدا نے تکبر ان کا بھی پسند نہیں کیا ‘ شیخ سعدی روایت کر تے ہیں کہ حضرت سہل تشتری نے راہ فقر اختیار کر لی۔

دن رات دنیا چھوڑ کر عبادت ریاضت مجاہدے نوافل تزکیہ نفس کرتے عبادت کا ذوق اتنا بڑھا کہ شیشہ قلب صاف ہو گیا سچے خواب آنا شروع ہو گئے قوت مکاشفہ بھی بیدار ہو گئی ‘ کشفی اطلاعات شیشہ قلب پروارد ہو نے لگیں تو یہ خیال گزرا کہ میں مرتبہ ولایت پر فائز ہو گیا ہوں ‘ یہ خیال بڑھتا بڑھتا تکبر میں ڈھل گیا حق تعالیٰ کا محبوب بندہ تھا اِس لیے اللہ تعالی نے تربیت دینے کا فیصلہ کیا الہام کیا کہ تم خراسان جائو وہاں ایک رئیس کی بیٹی جنون میں مبتلا ہے اُس کا علاج کر کے آئو ‘ آپ الہام کے ہو تے ہی خراسان کی طرف چل دئیے وہاں جاکر عظیم الشان محل دیکھا تو لوگوں نے بتایا یہ فلاں رئیس کا محل ہے آپ محل کے دروازے پر پہنچے جاکر پہرہ داروں سے کہا میں طبیب ہوں رئیس کی بیٹی کا علاج کر نا چاہتا ہوں ‘ جا کر رئیس کو میرے بارے میں بتائو نوکروں نے غور سے سہل تستری کی طرف دیکھا اور کہا ذرا محل کی دیوار کی طرف دیکھو جہاں بیسیوں کٹے ہو ئے سر نظر آئے پو چھنے پر لوگوں نے بتا یا یہ بھی سارے طبیب ہی تھے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ رئیس کی جنونی بیٹی کا علاج کریں گے۔

رئیس نے اِس شرط پر اجازت دی کہ اگر علاج کامیاب نہ ہو ا تو سر قلم کر دیا جائے گا چنانچہ سارے کٹے ہو ئے سر اُن ناکام طبیبوں کے ہیں جنہوں نے علاج کیا ناکامی ہو ئی تو ان کے سر کاٹ کر نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ اب اگر تم بھی اپنا سر کٹوانا چاہتے ہو تو ہم جاکر بتا دیتے ہیں ‘ حضرت سہل نے کہا مجھے منظور ہے مجھے رئیس کے پاس لے چلو جب رئیس کے سامنے پہنچے ‘ غلاموں نے بتایا کہ یہ صاحب بھی کو ئی طبیب ہیں ہم انہیں ساری بات بتا چکے ہیں لیکن یہ پھر بھی صاحبزادی کا علاج کر نا چاہتے ہیں تو رئیس بولا تم پہلے آنے والے طبیبوں کے کٹے سر دیوار پر لٹکے دیکھ آئے ہو تو حضرت سہل تشتری بولے بلکل دیکھ آیا ہوں ‘ میں تب بھی علاج کر نے کے لیے تیار ہوں۔

رئیس بہت خوش ہوا کہ یہ کو ئی بہت بڑا طبیب ہے جو سب کا عبرتناک انجام دیکھ کر بھی نہیں ڈرا اُس نے زنان خانے میں پیغام بھیجا کہ شہزادی کو تیا ر کرو کوئی طبیب اُس کا علاج کرنے آیا ہے پھر رئیس حضرت سہل کو لے کر زنان خانے میں داخل ہوا جب لڑکی کے کمرے کے قریب پہنچے تو لڑکی نے خادمہ کو آواز دی میرا نقاب لائو تاکہ میں پردہ کر لوں تو رئیس حیران ہو ااِس سے پہلے کتنے ہی طبیب آئے لیکن لڑکی نے کبھی بھی کسی سے پردہ نہیں کیا اِس طبیب میں وہ کو نسی خاص بات ہے جو وہ اِس سے پردہ کر رہی ہے تو لڑکی بو لی پہلے آنے والے مرد نہیں تھے مردیہ ہے جو آج آیا ہے رئیس حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ آنے والا کونسا خاص طبیب اور مرد ہے کہ بیٹی اُس کو خاص عزت وقار دے رہی ہے۔

حضرت سہل تستری لڑکی کے قریب آکر بو لے السلام علیکم تو رئیس زادی نے سلام کا جوا ب دیا اور کہا اے پسر خاص آپ پر بھی سلامتی ہو تو حضرت سہل نے پوچھا تم نے یہ کیسے سمجھا کہ میں پسر خاص ہوں تو رئیس زادی بو لی جس نے تم کو یہاں بھیجا اُس نے مجھے تمہارے آنے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تمہیں اللہ تعالی نے خاص مقام بخشا ہے جس کی وجہ سے روح کو تسکین ملتی ہے تمہاری اُس صفت خاص اور مقام و مرتبے سے میں حُجالت محسو س کر رہی ہوں ‘ لڑکی کا باپ اپنی بیٹی اور آنے والے طبیب کی عجیب و غریب گفتگو سن کر پتھر کے مجسمے کی طرح ساکت کھڑا تھا کہ میری بیٹی اور آنے والا طبیب یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں اِس دوران حضرت سہل تستری بھی یہ جان چکے تھے کہ لڑکی کو کوئی جنون وغیرہ نہیں ہے اور نہ ہی کو ئی ایسی بیماری ہے بلکہ یہ تو کوئی اور ہی روحانی مسئلہ تھا۔

حضرت سہل تستری نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھی تاکہ رئیس زادی کو سکون میسر ہو لڑکی نے جیسے ہی آیت سنی غش کھا کر گر پڑی اور بے ہوش ہو گئی تھوڑی دیر بعد جب ہوش میںآئی تو حضرت سہل بولے آ تجھے سر زمین اسلام لے چلتا ہوں تو رئیس زادی بولی سر زمین اسلام میں وہ کونسی خاص شے ہے جو یہاں نہیں ہے تو حضرت سہل بولے اسلام میںخانہ کعبہ ہے جو یہاں نہیں ہے تو لڑکی نے جواب دیا اگر تو کعبہ دیکھ لے تو اُسے پہچان لے گا اور کیا کعبہ صرف سر زمین اسلام میں ہی ہے کسی اور جگہ نہیں ہو سکتا میرے سر کے اوپر نگاہ ڈالو اور دیکھو تمہیں کیا نظر آرہا حضرت سہل نے لڑکی کے سر کے اوپر نگاہ ڈالی تو حیران کن منظر دیکھا لڑکی کے سر کے اوپر خانہ کعبہ نظر آرہا تھا جو لڑکی کے سر کا طواف کر رہا تھا حضرت سہل اِس منظر کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے کہ اِس لڑکی کا روحانی مقام کیاہوگا جس کے سر کا طواف خانہ کعبہ کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد جب ہوش میں آئے تو پوچھا اے لڑکی تو نے یہ مقام کیسے حاصل کیا تو لڑکی بو لی تمہیں پتہ ہو نا چاہیے کہ جو شخص اپنے پائوں کے ساتھ خانہ کعبہ جاتا ہے وہ کعبہ کا طواف کر تا ہے اور جو اپنے دل کے ساتھ کعبہ جاتا ہے تو کعبہ خود اُس کا طواف کر تا ہے اور تجھے یہ اب جان لینا چاہیے کہ تو ابھی خدا سے ایک قدم دور ہے اگر تمہاری خواہش ہو تو تمہیں ہر خاص راز بتا دیتی ہوں اگر تم جاننا چاہتے ہو تو بتا دوں ‘ حضرت سہل یہ سن کر چیخ اٹھے میری جان تم پر قربان مجھے جلدی بتائو ورنہ میں پاگل دیوانہ ہو جائو ں گا تو باکمال رئیس زادی بو لی تو سنو پھر وہ راز یہ ہے کہ جس نے اپنے نفس کو جان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا عارفہ با کمال لڑکی کے جواب نے حضرت سہل تستری کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے یہ سن کر سار ے حجابات اٹھ گئے اور ساتھ میں یہ راز بھی کھل گیا کہ اِس دنیا میں اللہ کے ایک سے بڑھ کر ایک نیک بندے ہیں جو اُن سے کہیں عظیم و اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اُسی وقت تو بہ کی دل سے بڑائی اور ولایت کا خیال نکال دیا اس طرح حق تعالیٰ نے اِس واقع کے ذریعے اپنے نیک بندے کو غرور تکبر کی آفت سے بچا کر صراط مستقیم کی راہ دکھا دی۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی