تحریر : عمارہ کنول اٹھائیس مئی کو پاکستان ایٹمی قوت بنا اس دن پاکستان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور میاں محمد نواز شریف کی زیر نگرانی غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کیا اب غوری میزائل پراجیکٹ کس نے شروع کیا اس بارے بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں اور چونکہ مجھے اپنے کالم کے لیے گوگل صاحب کا سہارا لینا پسند نہیں اس لیے جتنااور مستند علم ہے وہ ہی آپ سب کے ساتھ بانٹنا چاہوں گی ۔یوم تکبیر نام کی تشہیر 14تا 25اپریل 1999پی ٹی وی اور پی ٹی وی ورلڈ پر ہوئی ۔چیئرمین پی ٹی وی کے نام مراسلوں کی تعداد 1,35,000تھی ۔جن میں 1,15149خطوط اور فیکس 9726 جبکہ ای میلز کی تعداد 10125رہی ۔کمیٹی کا پہلا اجلاس 2مئی 1999کو ہو اشرکاء : سینیٹر پرویز رشید ،چیئرمین پی ٹی وی جمیل الدین عالی ،مجیب الرحمان شامی ،ڈاکٹر مہتاب اکبر راشدی ،میر عبدالعزیز ،خلیل ملک ،پروفیسر راج ولی شاہ خٹک،یوسف بیگ مرزا ایم ڈی پی ٹی وی علی اکبر عباس ،شاہدصنم ، فخر حمید نے تیس ناموں کو فائنل کیا ۔جبکہ موصول ہونے والے ناموں کی تعداد1082تھی ۔پھر 6 مئی 1999 کو خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہواجس کے شرکاء مجیب الرحمان شامی ،سینیٹر پرویز رشید ،خلیل ملک ،یوسف بیگ مرزا ،اظہر لودھی سیکر ٹری کمیٹی ،تھے۔
اس اجلاس میں پانچ ناموں کا اختصار کیا گیا اس کے بعد اعلی سطحی اجلاس 7مئی 1999کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں ہوا جس میں انھوں نے یوم ِتکبیر نام کی منظوری دی اس نام کو تجویز کرنے والے 690افراد تھے اور ان میں سے ایک یہ ناچیز بھی ہے ۔سنا ہے کہ اس پراجیکٹ کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ہیں خیر یہ پراجیکٹ اگر لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی شروع کیا تھاتو بھی ہمیںاللہ کے بعد اُس شخص اور بالخصوص ڈاکٹر قدیر کا شکرگزار ہونا چاہئیے کہ جن کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا اس وقت کے وزیر اعظم جناب نواز شریف کو اللہ نے معلوم نہیں کیا دکھا یا کہ انھوں نے انڈیا کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھ دھماکے کرکے دنیا میں دھماکہ کر دیااور یو ں پاکستان اٹیمی قوت بننے والا دنیا کے نقشے پر پہلا اسلامی ملک بن کر ابھرا ۔ کیونکہ اب ہم وہ طاقت ہیں جو دشمن کو ناکوں لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں ۔غوری میزائل صرف پاکستان نہیں پورے عالم اسلام کی فتح کا نشان ہے ۔یہ کامیابی اللہ کی عنایت ہے یہ تمغہ ہے پوری قوم کے لیے ایک ایسا اعزاز جسے اللہ نے وزیراعظم کے ہاتھوں ان کی اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے حاصل کروایا۔
میری امی ایک سکول ٹیچر تھیں ابو اپنے کاموں میں مصروف ہوتے تو زیادہ وقت امی کے ساتھ گزرا ،تعلیمی مراحل بہت جلد طے کیے۔ مارچ1998 میں بی اے کے فائنل ایگزام ہوئے اوررزلٹ کاانتظارمیں ٹی وی کی شامت شروع ہوئی ۔ شاید آپ اس بات کو تسلیم نا کریں کہ میرا اپنے دور تعلیمی میں ٹی وی پر کوئی دھیان نا تھا میں نے بی اے پاس کرنے تک ٹی وی شوق سے نہیں دیکھا بہرحال فارغ التعلیم ہو جانے کے بعد پھر یہی کام کیا کہ دن رات بس تجھے دیکھا کریں ۔ صبح تلاوت کلام پاک سے شروع ہونے والی نشریات قومی ترانے تک نہایت خشوع و خضوع سے دیکھی جاتیں ،پھر STNآیا تو مختلف ڈرامے دیکھنے کو ملنے لگے ۔رات گئے انٹینا گھما کر انڈین چینل بھی دیکھنے کو مل جاتے زندگی سہل گزر رہی تھی، اپریل 1999میں پی ٹی وی اور پی ٹی وی ورلڈ کے اشتہارات میںسے ایک اشتہار نے توجہ اپنی جانب مبذول کی کہ الحمدللہ پاکستان نے گذشتہ سال اٹیمی دھماکوں کا کامیاب تجربہ کر کے ایٹمی قوت کا درجہ حاصل کیا ہے۔ اس دن کو ہر سال منانے کے لیے کوئی نام تجویز کریں ۔ سو کاپی پنسل اٹھائی ایک عام چھوٹے سے صفحے پر لکھا کہ آج صبح نماز کے لیے اٹھی تو کان میں آواز آئی اللہ اکبر ۔۔ تو سوچا، دینا میں کہیں بھی مسلمان ہوں ان کی پہچان ایک ہی نعرہ ہے، نعرہ تکبیر ،جس کے جواب میں ہر مسلمان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے، اللہ واکبر ، تو اس یوم کو یوم تکبیر کا نام دیا جانا چاہیئے کیونکہ یہ اللہ کی قدرت کا مظہر ہے اور اس پر ہر مسلمان کا حق ہے ۔ اس تحریر کو پوسٹ کرتے ہوئے صرف اس چیز کی خوشی تھی کہ اپنے ملک کے کسی کام میں حصہ تو ڈال رہی ہوں ۔دس یا بارہ مئی کا دن ہو گا ذوالفقار کالونی فیصل آبا د کی گلی نمبر ایک دوپہر کے ایک بجے پولیس موبائلز اور سائرن سے گونج اٹھی ۔ہمارے گھر کا دروازہ بجا۔میرا نام پکارا گیا یہاں میں ایک وضاحت کرتی چلوں کہ عمارہ کنول میرا قلمی نام ہے میرا اصل نام کچھ اور ہے اور اس نام میں کنول شامل ہے ۔میری والدہ ایک دم گھبرا گئیں کہتیں جی فرمائیں میں کنول کی والدہ ہوں ۔ وہ شاید ایس پی رینک آفیسر تھے کہنے لگے کنول کو میاں نواز شریف کی طرف سے خط دینے آئے ہیں ،خیر میں آئی پہلے تو اتنی پولیس فورس سے سیلوٹ اور پھر ڈاک وصول کر کے سائن کیے۔
خط میں آگاہ کیا گیا تھا کہ 19 مئی کو لاہور پی ٹی وی جا کر اپنی سند اعزاز وصول کریں نیز قرعہ اندازی میں جس ایک شخص کا نام آئے گا اسے ایک لاکھ کا نقد انعام دیا جائے گا مقررہ دن پشاور کے کسی بندے کا انعام نکل آیا ہمارے لٹکے ہوئے چہرے میں شہباز شریف کو غالبا پسند نہیں آئے فوری اعلان صادر فرمایا کہ 7کلب روڈ پر پنجاب سے شامل تمام لوگوں کو سند اعزاز کے ساتھ نقد انعام دس لاکھ جو کہ صرف پنجاب والوں کو ملیں گے ۔خیر ہم واپس آگئے کچھ دنوں بعد پھر مراسلے موصول ہوئے پولیس آفیسر آتے ڈاک دیتے ہمارا آٹو گراف لیتے اور چلے جاتے ہم ایک دم اتنے معتبر سے ہو گئے کہ لوگ پولیس سے کام نکلوانے کے لیے ہمیں کہنے لگے کہ آپ کی بات مانیں گے آپ کی تو وزیر اعظم تک پہنچ ہے۔
اس دور میں ہامون جادوگر پبلک ریلیشن آفیسر تھے جن کا اسم گرامی بعد ازاں حسیب پاشا معلوم ہوا ہمارے لیے یہ بہت اچنبھے کی بات تھی کہ ہامون جادوگر پینٹ شرٹ بھی پہنتا ہے ان کا آٹوگراف لیا گیا اس دن فیصل آبا د سے پولیس کے ایک دستے نے ہمیں جلسہ گا ہ تک پروٹوکول دیا کہ، ہم خاص طور سے فیصل آباد کی شان، کی شرکت کو یادگار بنانے بھیجے گئے ہیں۔پنجاب بھر کے لوگ جلسہ میں تھے پھر میاں صاحب تشریف لائے اور سب کے نام باری باری پکارے جانے لگے ہماری باری آنے پر دھڑکتے دل کے ساتھ تالیوں کی گونج میں اپنی سند اور چیک وصول کیا ۔فیصل آباد آئے بہت پروٹوکول ملا بہت عزت ملی۔ کراس چیک کے ذریعے ملنے والی چار ہزار کچھ روپے کی رقم اس یقین کے ساتھ سب سے شیئر کی کہ یہ کو ن سا آخری روپے ہیں ،اور اس سنہری دن کو منانے کی ایک چھوٹی سی وجہ بنے ۔آج خوشی ہوتی ہے اپنے پاکستان اور اپنی سند کو دیکھ کر،ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ آج بھی دل میں موجزن ہے لکھنے سے خوشی تو ملتی ہے پر سکون تب ملے گا جب ملک کے لیے اپنی صلاحتیوں کو برئوکار لا سکوں۔
ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایک مفکر ہے جسے فکر معاش نے بدحال کر رکھا ہے یا کثرت ِزر نے بے فکر کر دیا ہے ،ہم ہر بات کے لیے حکومت کو موردالزام ٹھہرانے لگتے ہیں اس پیارے ملک کی پالیسیوں اور ایوانوں میں بیٹھے صاحب اقتدار حضرات کو للکارنے لگ جاتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ان کو منتخب ہم نے کیا ہے ان کو اپنا کام توجہ سے کرنے کا موقع دیا جائے تو بہتری ہماری ہے ہمارے ذہن اس قدر تخریبی پائے گئے ہیں کہ ذرا سی بات پر ہم توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں اتنا بھی نہیں سوچتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کا نقصان ہے جو ہمیں تھالی میں ملا اور ہمارے بڑوں کو جانوں،مال اور عصمتوں کی قربانی دے کر ،یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس ملک کے لیے جب ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تو مانگنے اور بگاڑنے کا بھی حق نہیں ۔اگر ہم اس ملک کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم تخریب کاروں کے آلہ کار تو نا بنیں ۔ اس ملک کے لیے جس نے ہمیں آزادی دی بولنے کا حق دیا اس ملک کے لیے ہم نے کیا کیا؟؟ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتاآیا ہے کہ عوام کسی کو اپنا لیڈر چنتی ہے اور پھر کسے دوسرے کے کہنے میں آکر اسی کوکبھی پھانسی چڑھا دیتی ہے کبھی چور قرار دیتی ہے کبھی کبھی تو دکھ ہوتا ہے کہ ہم ایٹمی قوت اس قوم کے لیے بنے ہیں جسے لعوولہب سے مطلب ہے آج ملک کی کونسی بیٹی محفوظ ہے سڑکوں پر خواتین کو کون چھیڑتا ہے ؟ کمزور بے بس عورتوں کی عزت اور زندگی سے کھیلنے والے ۔ٹریفک سگنلز پر رشوت دینے اور لینے والے، ملاوٹ کرنے والے ، منافع خوری کرنے والے ، بیویوں کو مارپیٹ کرنے والے،عدالتوں میں پیسے لے کر دوسری پارٹی سے مل کر عدالت اور قانون کی دھجیا ںبکھیرنے والے عام انسان اور پاکستان کی عوام ہیں۔
املاک کو نقصان پہنچانے والے اور ٹائرز کو آگ لگا نے والے حکمران نہیں ہم خودیعنی عوام ہیں ۔ہمیں حکمرانوں کا پروٹوکول تو بہت چبھتا ہے اور جب کوئی ہماری گاڑی سے ٹکرا کر معمولی سی خراش بھی لگا دے تو اس رکشے ریڑھی والے سے جھگڑا کرنے پر کتنی دیر ٹریفک رکی رہی ہمیں کوئی پروا نہیں ۔یہاں نیک وہ ہے جسے کبھی برائی کا موقع نہیں ملا سوال یہ نہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا۔سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟ کیا آج ہم اپنے گریباں میں جھانک کر انصاف سے بتا سکتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے لیے کیا کیا؟ ہم نے پاکستان کی دھرتی کا سینہ چیر کر، اُگی ہوئی گندم کھائی پانی پیا اور پھر ڈکار لے کر کہا پاکستان میں ہے کیا کرپشن کے سوا؟ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا، پاکستان سے اعلی تعلیم سستے سکولوں سے حاصل کی ،ٹاپ کیا ،جب کام کا وقت آیا تو چلوملک سے باہر چلیں پاکستان میں اس اعلی تعلیم کا یا مصرف ، پاکستان میں اچھی نوکری نہیں ۔خود ہم نے کس کوترجیح دی اپنی ذات اپنے مفاد کو ، نا کہ پاکستان کو ۔ ہسپتالوں میں سکولوں تھانوں میں کون بیٹھا ہے میرے اور آپ جیساایک عام شہری جو تنخواہ بھی لے رہا ہے مراعات بھی لے رہا ہے اور جب حکمران کہتے ان گندی مچھلیوں کو بے نقاب کرو تو کبھی اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے یا میں کیوں ؟کا رویہ اپنا کر کس نے چھوڑا؟؟ چلیں نیک کام میں دیر کیسی ۔۔ آج سے شروع کر لیتے ہیں ہم عہد کر لیتے ہیں کہ جہاں کوئی برائی دیکھیں گے اسے روکیں گے ،ہم خود سے کوئی غلط کام نہیں کریں گے۔ہم اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کے لیے اپنے حصے کا کام ایمانداری سے سر انجام دیں گے تا کہ خود کی بڑائی کی بجائے فقط ایک اللہ کی کبریائی نظر آئے ۔ تا کہ جب کوئی نعرہ تکبیر پکارے تو ہم دل کی پاکیزگی و گہرائی سے اللہ واکبر کہہ سکیں ۔آج اس یوم تکبیر کو اپنے اندر بسانے کا عہد کر لیں۔کیا آپ میرے ساتھ ہیں؟؟؟