ائیرمارشل نور خان ایک طلسماتی شخصیت تھے‘ وہ 1923ء میں پیدا ہوئے‘ 1941ء میں انڈین ائیرفورس جوائن کی‘ 1947ء میں پاکستان ائیر فورس کا حصہ بنے اور پھر ہیرو کی زندگی گزاری‘ وہ ”مین آف سٹیل“ کہلاتے تھے‘ وہ 1965ء کی جنگ میں ائیر چیف تھے لیکن خود جہاز اڑا کر حساس ترین مقامات پر چلے جاتے تھے‘ ان کی خدمات کا دائرہ صرف ائیرفورس تک محدود نہیں تھا‘ وہ 1959ء سے 1965ء تک پی آئی اے کے ایم ڈی رہے اور اسے دنیا کی پانچ بہترین ائیر لائینز میں شامل کرا دیا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے اور پاکستان کو ہاکی کا ورلڈ چیمپیئن بنوا دیا‘ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے اور ہم کرکٹ کی دنیا میں ”مین پلیئر“ بن گئے‘ نور خان نے اپنی زندگی میں جس ادارے میں قدم رکھا وہ ادارہ انٹرنیشنل بن گیا اور دوسرے ملکوں نے وہ ماڈل بعد ازاں نقل کیا تاہم یہ تمام کامیابیاں ائیر مارشل نور خان کی پروفیشنل زندگی تھی‘ آپ کو زندگی میں ایسے بلکہ ان سے بھی بہتر لوگ مل جائیں گے لیکن ان کا اصل کمال ان کی ذاتی زندگی تھی‘ وہ 1969ء میں ریٹائر ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے 42 سال بعد 2011ء میں 88 سال کی عمر میں فوت ہوئے مگر وہ مرنے تک سپر فٹ تھے‘ وہ اسلام آباد میں روز مارگلہ ہلز کی ٹریل تھری پر ٹریکنگ کرتے تھے اور 40 منٹ میں بغیر رکے آخری پوائنٹ تک پہنچ جاتے تھے‘ میں اکثر انہیں ٹریل تھری پر دیکھتا تھا‘ وہ دائیں بائیں دیکھے بغیر بیس بیس سال کے نوجوانوں کو کراس کر جاتے تھے‘ ہم لوگ ان کے مقابلے میں جوان بھی تھے اور ”سپر فٹ‘ بھی لیکن ہم جوان لوگ انہیں کبھی کراس نہ کر سکے‘ ہم جب آخری پوائنٹ پر پہنچتے تھے تو وہ نیچے پہنچ چکے ہوتے تھے‘ وہ88 سال کی عمر میں بھی چالیس سال کے لگتے تھے‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کے گھٹنوں میں درد ہوتا تھا‘ ہم مسلسل چار دن ٹریک نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ آندھی ہو یا طوفان وہ وقت مقررہ پر مارگلہ کی پارکنگ میں ہوتے تھے اور ہاتھ پیچھے باندھ کر اوپر چڑھنا شروع کر دیتے تھے۔میں نے ایک دن ان سے پوچھا ”سر آپ کے گھٹنوں میں درد نہیں ہوتا‘ وہ ہنس کر بولے ”مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں پہاڑ پرچڑھنے اور اترنے سے گھٹنے جواب دے جاتے ہیں لیکن مجھے آج تک کسی جوڑ میں درد نہیں ہوا“ میں نے عرض کیا ”یہ شاید آپ کے طاقتور جینز کا کمال ہے“ وہ ہنس کر بولے ”نہیں ہرگز نہیں‘ میرے خاندان کے زیادہ تر لوگ جلدفوت ہو گئے تھے“ میں نے ان سے وجہ پوچھی‘ ائیر مارشل صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے ”ینگ مین وِل ٹیل یو نیکسٹ ٹائم“اور تیز تیز قدموں سے پہاڑ چڑھنے لگے۔
مجھے محسوس ہوا وہ ایکسرسائز کے ساتھ ساتھ وقت کے بھی ٹھیک ٹھاک پابند ہیں‘ میں اس کے بعد ان سے کئی مرتبہ ملا‘ سلام کیا ”نیکسٹ ٹائم“ کا حوالہ بھی دیا لیکن وہ مسکرا کر آگے نکل گئے لیکن پھر ایک دن معجزہ ہو گیا‘ وہ میرے قریب سے گزرے اور بولے ”آپ اگر آج فارغ ہیں تو بات ہو سکتی ہے“ میں نے عرض کیا ”سر وقت ہی وقت‘ آپ فرمائیے“ وہ بولے”میں 40 منٹ میں نیچے آ جاؤں گا‘ ہم آدھ گھنٹہ گپ لگا لیں گے“ میں نے سلام کیا اور اوپر جانے کی بجائے نیچے کی طرف چل پڑا کیونکہ میں جانتا تھا میں 40 منٹ میں واپس نیچے نہیں پہنچ سکوں گا۔
میں بمشکل نیچے پارکنگ میں پہنچا‘ آپ یقین کیجئے وہ 88 سال کی عمر میں 39 منٹ میں اوپر آخری پوائنٹ کو ہاتھ لگا کر نیچے آ گئے تھے۔ٹریل تھری کی پارکنگ کے سامنے کسی صاحب ذوق نے گھر میں کلب ٹائپ ریستوران بنا رکھا تھا‘ ہم وہاں چلے گئے‘میرے پاس وقت کم تھا اور سوال زیادہ چنانچہ میں نے ان سے فٹنس کا راز پوچھنا شروع کر دیا‘ وہ بولے ”صحت اٹھارہ اصولوں کا مکمل پیکج ہے‘ ایکسرسائز اس پیکج کا صرف ایک اصول ہے‘ ہم جب تک باقی 17 اصولوں کو ایکسرسائز جتنی اہمیت نہیں دیتے ہم اس وقت تک سپر فٹ نہیں ہو سکتے“۔
میرے لئے یہ نئی بات تھی‘ میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ”وقت کی پابندی صحت کا پہلا اصول ہے‘ آپ جب تک وقت کو کنٹرول نہیں کرتے‘ آپ اس وقت تک صحت مند نہیں ہو سکتے‘ میں نے اپنی زندگی میں وقت کی پابندی نہ کرنے والے کسی شخص کو 60 سال سے اوپر جاتے نہیں دیکھا‘ میں نے 18 سال کی عمر میں گوروں کے ساتھ کام شروع کیا تھا‘ میں نے وقت کی پابندی ان سے سیکھی‘ ٹائم اور ٹائمنگ فلائنگ کے بنیادی اصول ہیں‘ فلائنگ نے میری یہ عادت پختہ کر دی چنانچہ کچھ بھی ہو جائے میں وقت کی پابندی کرتا ہوں۔
مجھے صدر ایوب خان نے بلایا تھا‘ وہ چار منٹ لیٹ تھے‘ میں ماتحت ہونے کے باوجود ملاقات کے بغیر واپس آ گیا تھا‘ وہ دوسرے دن خود میرے دفتر آئے۔دوسرا‘ میں سگریٹ اور شراب نہیں پیتا‘ چائے اور کافی بھی زیادہ نہیں لیتا‘ میری نوکری کے زمانے میں سگریٹ اور شراب فوجی کلچر کا حصہ تھی‘ ہمیں کوٹہ ملتا تھا‘ میں اپنا کوٹہ اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیتا تھا‘ میرے کوٹے کو انجوائے کرنے والے تمام لوگ چالیس سال پہلے فوت ہو گئے جبکہ میں آج بھی روزانہ پہاڑ پر چڑھتا ہوں۔
تیسرا‘ میں زندہ رہنے کیلئے کھانا کھاتا ہوں‘ کھانا کھانے کیلئے زندہ نہیں رہتا‘ میں نے کیریئر کے شروع میں انگریز افسروں کو فاقے کرتے دیکھا تھا‘ ہمارے بیس میں ایک بودھ بھکشو آیا کرتا تھا‘ وہ افسروں کو فاقہ کراتا تھا‘ افسر فاقے کے بعد چاق و چوبند ہو جاتے تھے‘ میں نے ان کی دیکھا دیکھی روزے رکھنا شروع کر دیئے‘ میری جسمانی اور ذہنی صحت روزوں کی وجہ سے زیادہ اچھی ہو گئی‘ میں نے اس تجربے سے سیکھا روزہ بھی اچھی صحت کا ایک اصول ہے۔ میں یہ اصول بھی کیری کرتا ہوں‘ رمضان کے سارے روزے بھی رکھتا ہوں اور عام دنوں میں بھی ہر مہینے دو چار روزے رکھ لیتا ہوں‘ میرا جسمانی نظام ٹھیک رہتا ہے“ وہ رکے اور بولے ”میں نمک‘ چینی‘ مسالے اور گھی کم استعمال کرتا ہوں‘ تلی ہوئی اشیاء نہیں کھاتا‘ گوشت کی جگہ مچھلی کھاتا ہوں اور وہ بھی گرلڈ‘ ہمیں اچھی صحت کیلئے ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ مچھلی کھانی چاہیے‘ یہ ہمیں فٹ رکھتی ہے“ وہ رکے اور بولے ”پریشانی‘ دکھ اور غم انسان کو جلد بوڑھا کر دیتے ہیں۔
میں پریشان ہونے کی بجائے ہمیشہ اپنی پریشانی کا حل تلاش کرتا ہوں‘ حل نکل آئے تو ٹھیک ورنہ اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتا ہوں“ وہ رکے اور مسکرا کر بولے ”میں روز اپنا وزن کرتا ہوں‘ میں نے باتھ روم میں وزن کی مشین رکھی ہوئی ہے‘ میں صبح اٹھ کر وزن دیکھتا ہوں جس دن میرا وزن زیادہ ہو میں اگلے دن روزہ بھی رکھ لیتا ہوں اور ٹریکنگ کا دورانیہ بھی بڑھا دیتا ہوں‘ وزن کا صحت سے گہرا تعلق ہے‘ آپ کا وزن جتنا بڑھتا جاتا ہے‘ آپ اتنا اپنی قبر کے قریب ہوتے جاتے ہیں چنانچہ آپ کسی قیمت پر اپنا وزن نہ بڑھنے دیں‘ آپ فٹ رہیں گے“ وہ رکے اور بولے ”میں دوستوں کے معاملے میں بھی بہت سخت ہوں‘ میں صرف ہم مزاج لوگوں کو دوست بناتا ہوں‘ چڑچڑے‘ بدتہذیب‘ نمائشی اور نالائق لوگوں سے پرہیز کرتا ہوں لیکن جو لوگ میرے دوست بن جاتے ہیں میں روز ان سے ضرور ملتا ہوں‘ انسان کو اچھے اور ہم مزاج لوگوں کی کمپنی ہمیشہ انرجی دیتی ہے‘ میں یہ انرجی بھی لیتا ہوں‘ میں نے دوستوں سے محروم تنہائی پسند لوگوں کو بھی جلد مرتے دیکھا“ وہ رکے اور بولے ”آپ اگر اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے رہیں تو بھی آپ صحت مند رہتے ہیں۔
امید انرجی ہوتی ہے اور یہ شکر سے جنم لیتی ہے‘ آپ اللہ کا شکر کرتے جائیں‘ آپ کی امید بڑھتی جائے گی‘ میں نے مایوس اور ناشکرے لوگوں کو ہمیشہ بیمار بھی دیکھا اور جلدی قبرستان پہنچتے بھی چنانچہ کچھ بھی ہو جائے امید اور شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دو تم لمبی اور صحت مند زندگی پاؤ گے“۔ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور فرمایا ”فیملی بھی آپ کو انرجی دیتی ہے‘ آپ اگر دن کا ایک حصہ بچوں اور ان کے بچوں میں گزارتے ہیں تو بھی آپ جوان اور صحت مند رہتے ہیں‘ میں پوری زندگی فیملی مین رہا ہوں‘ میں نے فیملی کو دور جانے دیا اور نہ خود ان سے دور گیا چنانچہ میں آج بھی چاق وچوبند ہوں‘ میں نے ان لوگوں کو بھی بیمار اور لاچار پایا جو صاحب اولاد نہیں تھے یا جو بچوں سے دور رہتے تھے جبکہ بچوں والوں کو خوش بھی دیکھا اور فٹ بھی“۔
میں ان کی گفتگو غور سے سن رہا تھا‘ وہ بولے”صحت کے چند اور اصول بھی ہیں مثلاً آپ اگر دوسروں کے کام آتے ہیں‘ چیریٹی ورک کرتے ہیں تو بھی آپ صحت مند ہوں گے‘ مثلاً آپ کم سے کم ریڈیو سنیں اور کم سے کم ٹی وی دیکھیں آپ صحت مند رہیں گے‘ مثلاً آپ جلدی سوئیں اور جلدی جاگیں‘ کم از کم نو دس گھنٹے نیند لیں‘ آپ کی جسمانی بیٹریاں چارج رہیں گی‘ مثلاً آپ فطرت کے قریب رہیں‘ میری طرح روزانہ پہاڑ پر آئیں‘ جنگلوں میں نکل جائیں‘ جھیلوں اور دریاؤں کے ساتھ واک کریں اور برف میں چلیں۔
مثلاً آپ روز چند منٹوں کیلئے خاموش بیٹھ جائیں‘ کسی سے بات کریں اور نہ کسی کی سنیں‘ یہ مراقبہ بھی آپ کو صحت مند بنا دے گا‘ مثلاً خوراک میں سبزیاں اور فروٹ بڑھا دیں‘ ڈرائی فروٹ بھی کھائیں‘ مثلاً آپ کی زندگی کا کوئی نہ کوئی گول‘ کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے‘ بے مقصد لوگ زمین پر بوجھ ہوتے ہیں‘ زمین انہیں جلد اتار دیتی ہے اور مثلاً آخر میں روزانہ ایکسرسائز بلاناغہ‘ ریس لگائیں‘ نہ لگا سکیں تو جاگنگ کریں‘ یہ بھی نہ کر سکیں تو واک ضرور کریں‘ آپ لمبی زندگی گزاریں گے“۔
وہ رکے‘ گرین ٹی کا آخری گھونٹ بھرا اور بولے ”آخری ٹپ‘ تجربہ کار لوگوں سے تجربے کی باتیں سیکھتے رہا کریں‘ علم بھی انسان کو رواں اور صحت مند رکھتا ہے“ وہ اٹھے‘ ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گئے‘ وہ چند دن بعد بیمار ہوئے‘ ہسپتال داخل ہوئے اور دو دن بعد انتقال فرما گئے‘ وہ ہسپتال جانے سے پہلے بھی ٹریل تھری پر آئے تھے اور اپنی آخری واک مکمل کی تھی۔