افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں حکومتی فورسز کے ہتھیار ڈال دینے اور پورے ملک پر طالبان کے برق رفتار قبضے نے بڑی عالمی طاقتوں کو بھی ششدر کر دیا ہے۔ ادھر افغانستان کی صورت حال پرآج پیر کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔
افغان فورسز کے معمولی مزاحمت کے بعد طالبان کے آگے خودسپردگی کر دینے نیز صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تسلیم کیا ہے کہ امریکا نے جس افغان فوج کو گزشتہ بیس برس سے تربیت دی اور انہیں جدید ترین اسلحے سے لیس کیا، ان کی طاقت اور صلاحیت کا درست اندازہ نہیں لگايا جا سکا۔
انٹونی بلنکن کا کہنا تھا،” ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ افغان فوج اپنے ملک کا دفاع نہیں کر سکی اور يہ ناکامی ہماری توقع سے کہیں جلد آئی۔”
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے افغانستان کے تین لاکھ فوجيوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ تقریباً ایک لاکھ طالبان ان کے سامنے ٹک نہیں پائیں گے۔ لیکن طالبان کے حملوں کے بعد فوجی اہلکاروں نے نہ صرف ہتھیار ڈال دیے بلکہ بعض فوجی تو بھاگ گئے۔
امریکی وزیر خارجہ نے تاہم کابل میں امریکی سفارت کاروں اور دیگر افراد کی افراتفری میں واپسی کوبہت زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے کہا،”یہ سائیگون نہیں ہے۔” واضح رہے کہ سن 1975میں ویت نام کی جنگ کے بعد امریکا کو سائیگون سے جلد بازی میں نکلنا پڑا تھا۔
سابق امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حریف پر حملہ کرتے ہوئے افغانستان سے انخلاء کی وجہ سے امریکا کو ہونے والی سبکی کے لیے صدر جو بائیڈن سے استعفی کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیاکہ اگر وہ صدر ہوتے تو امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء کہیں مختلف اور زیادہ کامیاب ہوتا۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان فروری سن 2020 میں ہونے والا معاہدہ صدر ٹرمپ کے دور میں کیا گیا تھا۔
یوکرائن نے افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کی نکتہ چینی کی ہے۔یوکرائن کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ دیگر ممالک کے شہریوں کی بھی مدد کرے گی۔ یوکرین نے امریکا پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے کہا، ”وہ اب محفوظ ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑتے اور دوسروں کی بھی مدد کرتے ہیں۔ اگر کوئی بھی درخواست کرے، تو ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ یوکرائنی اور دیگر افراد کی مدد کریں۔”
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایک بیان میں کہا،”ہم افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فکر مند ہیں۔ ہم نے وہاں اپنے سفارت خانے کو بند کرنے کے حوالے سے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔”
اس دوران وزیراعظم عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے افغان صورت حال پر بات کی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان سے بین الاقوامی سفارتی عملے کے انخلاء میں تعاون کر رہا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے آج قومی سلامتی کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔
بھارت کی طرف سے اب تک کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آج پیر کو ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ايسی خبروں سے سخت پریشان ہیں کہ طالبان اپنے کنٹرول والے علاقوں میں لوگوں پر سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں اور بالخصوص خواتین اور صحافیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان جارحیت روکیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ اب افغانستان میں ایک نئی حکومت قائم ہو گی لیکن مغربی ملکوں کو چاہيے کہ وہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں کہ افغانستان ‘دہشت گردی‘ کی افزائش گاہ نہ بننے پائے۔
انہوں نے تمام ملکوں پر زور دیا کہ وہ نئی حکومت کے طور پر طالبان کو تسلم کرنے میں جلد بازی سے گریز کریں۔