قندوز (جیوڈیسک) افغانستان کے شمال میں طالبان نے افغان فورسز کے مختلف اڈوں پر متعدد حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ طالبان کے حملوں میں حیران کن شدت دیکھی جا رہی ہے۔
افغانستان کے شمالی حصے میں شدت پسندوں کے ایک حملے میں ملکی دستوں کے 14 اہلکار ہلاک ہو گئے۔ سمنگان صوبے کے گورنر کے ترجمان صادق عزیزی کے مطابق اس دوران ہونے والی جھڑپ میں مزید چھ اہلکار زخمی ہوئے جبکہ چار حملہ آور بھی مارے گئے۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن عزیزی نے اس حملے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی ہے۔
دوسری جانب قندوز میں بھی طالبان کے ایک حملے میں 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ قندوز صوبائی کونسل کے رکن محمد یوسف ایوبی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان کے اس حملے میں کم از کم پندرہ سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ حملہ دشت آرچی پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے قائم ایک چیک پوائنٹ پر کیا گیا۔ طالبان نے یہ حملہ اتوار کی شب کیا، جو پیر کی صبح تک جاری رہا۔
دریں اثناء جوزجان صوبے کے پولیس چیف جنرل فقیر محمد جوزجانی نے بتایا ہے کہ خمیاب ڈسٹرکٹ میں طالبان نے متعدد اطراف سے حملے کیے ہیں اور افغان فورسز نے اس علاقے میں عام شہریوں کو ہلاکتوں سے بچانے کے لیے ہیڈکوارٹرز چھوڑ دیے ہیں۔ جوزجانی کا مزید کہنا تھا، ’’لڑائی کا سلسلہ شدید تھا اور ہم نہیں چاہتے کہ عام شہریوں کے گھروں اور مال کو نقصان پہنچے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس لڑائی میں کم از کم آٹھ پولیس اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد سات ہے۔ انہوں نے اس لڑائی میں کم از کم سات طالبان کے ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
دریں اثناء طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے قندوز اور جوزجان میں حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
اسی طرح سرپُل میں بھی طالبان کے حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ صوبائی پولیس کے سربراہ جنرل عبدالقیوم باقزئی کے مطابق طالبان نے حکومتی اور حکومت کی حمایتی ملیشیا کی ایک چیک پوائنٹ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم سترہ اہلکار مارے گئے ہیں۔ ان کے مطابق اس علاقے میں لڑائی ابھی تک جاری ہے۔