افغانستان (جیوڈیسک) افغان طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے اندازوں کو رد کر دیا ہے۔ افغان حکومت کے ایک وزیر نے ستائیس جولائی کو طالبان کے ساتھ دو ہفتوں میں مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
طالبان نے کہا ہے کہ اشرف غنی حکومت کے ساتھ فی الحال براہ راست بات چیت کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ طالبان کی جانب سے یہ بیان کابل حکومت کے ایک بیان کے جواب میں سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا امکان پیدا ہوا ہے۔
خلیجی ریاست قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغان فریقین کے مابین بات چیت کا سلسلہ اُسی وقت شروع ہو سکتا ہے، جب غیرملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کا اعلان کیا جائے گا۔
ستائیس جولائی کوکابل حکومت کے وزیر مملکت برائے امن امور عبد السلام رحیمی نے مذاکرات کے شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ رحیمی نے یہ تک کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں کابل حکومت کا پندرہ رکنی وفد شریک ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق رحیمی کا یہ بیان اس اندازے پر مبنی ہو سکتا ہے کہ اگلے ایام کے دوران افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کی صورت واضح ہو جائے گی۔
افغانستان کے لیے مقرر امریکی مندوب زلمے خلیل زاد نے افغان وزیر مملکت عبدالسلام رحیمی کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان اصل میں امریکا اور طالبان کے مذاکرات کی تکمیل کے تناظر میں ہے اور افغان فریقین کا مذاکراتی عمل امریکا کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد شروع ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں قیام امن کے امریکا اور طالبان کے مذاکرات میں دو اہم امور ابھی تک حل طلب ہیں، جس میں جنگ بندی اور افغان فریقوں کے درمیان مذاکراتی عمل کا شروع ہونا شامل ہے۔ طالبان ماضی میں بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔
اسی دوران افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امن اب اِس ملک میں پہنچنے والا ہے۔ انہوں نے یہ بیان اتوار اٹھائیس جولائی کو صدارتی انتخابی عمل کے باقاعدہ آغاز کے موقع پر دیا۔ صدارتی انتخابات رواں برس اٹھائیس ستمبر کو ہوں گے اور اشرف غنی کو دیگر سترہ امیدواروں کا سامنا ہے۔