کابل (جیوڈیسک) تین ماہ قبل صدر کے عہدے پر نافذ ہونے والے اشرف غنی جلد ہی اپنی کابینہ کا اعلان کریں گے۔ افغان صدر کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ افغان طالبان کو باضابطہ طور پر عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی تاہم صدر اشرف غنی کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ صرف دو جماعتوں سے نہیں بلکہ افغانستان کی تمام جماعتوں کو افغان حکومت کا حصہ بننا چاہیے۔
اشرف غنی کو امید تھی کہ وہ تین افراد کو حکومت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان میں سے ایک طالبان کے پاکستان میں سابق سفیر ملا ضعیف جب کہ باقی دو میں سابق طالبان وزیر خارجہ وکیل متوکل اور گلبدین حکمت یار کے قریبی ساتھی غیرت بہیر شامل تھے۔ ان طالبان رہنماؤں کو جن وزارتوں کی پیشکش کی گئی تھی ان میں وزارت برائے دیہی امور، سرحدی امور اور حج کی وزارت شامل تھی۔
اس کے علاوہ افغانستان کے تین صوبوں میں طالبان گورنروں کی تعیناتی کے بارے میں مذاکرات ہوئے۔ ان تین صوبوں میں نمروز، قندھار اور ہلمند شامل ہیں۔ گورنروں کی تعیناتی عالمی برادری کے لیے متنازع ہوتی کیونکہ افغانستان میں زیادہ تر نیٹو فوجیوں کی ہلاکت طالبان کو جنوبی حصے سے باہر رکھنے کی کوشش میں ہوئی تھی۔
تاہم طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے کی گئی پیشکش کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی سمجھوتے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کا وہ سکیورٹی معاہدہ ہے جس کے تحت 2014 میں بین الاقوامی فوج کے انخلا کے بعد بھی کچھ فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے۔ حکومت کا حصہ بننے کے بارے میں مذاکرات سے قبل طالبان افغانستان کے آئین میں تبدیلی چاہتے ہیں اور عام معافی چاہتے ہیں۔
اشرف غنی کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ اشرف غنی حامد کرزئی کے مقابلے پر زیادہ بہتر طریقے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔