کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں بیس سالہ امریکی جنگی مشن کا خاتمہ دراصل نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیائی ممالک میں بھی چین کے لیے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ بیجنگ حکومت وسطی ایشیا کو اپنا ”عقبی صحن‘‘ قرار دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کے قبضے سے جہاں چین کے لیے نئے اقتصادی اور سیاسی مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہیں خطرات بھی ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی چین کے ایغور ریجن کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہیں، جہاں پہلے ہی چین مسلم اقلیت کے ساتھ ‘امتیازی سلوک‘ برت رہا ہے۔
چین پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے خدمات سر انجام دینے کے لیے تیار ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال افغانستان میں اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لیے البتہ اس ملک میں قیام امن اور سکیورٹی کی صورتحال انتہائی اہم ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی اتحادی فوجی مشن کے بعد یہ خطہ ایک مرتبہ پھر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
رائل یونائٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف لندن سے وابستہ رافائلو پنٹوچی کا کہنا ہے کہ چین اس بیانیے کو فروغ دے گا کہ امریکی اثررسوخ زوال کا شکار ہے، اس لیے بیجنگ حکومت ہی یورو ایشیا میں بہتر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس خطے میں قیام امن کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ فی الحال چین کے لیے یہ پراجیکٹ آسان نہیں ہو گا۔
دیگر کئی ممالک کی طرح چین نے بھی بارہا کہا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو دہشت گردی کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا۔ چین کو خطرہ ہے کہ اس صورت میں دہشت گردی کے اثرات سنکیناگ تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ایک اور اہم یہ بھی ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے اس شدت پسندی کے اثرات پاکستان اور وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں پر بھی منتج ہوں گے، جہاں چین نے نہ صرف بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے بلکہ اتحادی بھی بنا رہا ہے۔
چائنہ انسٹی ٹیوٹ آف کانٹمپریری انٹرنیشنل ریلشنز سے ریٹائرڈ ہونے والے بین الاقوامی سکیورٹی کے ماہر لی وائی کے بقول طالبان کیا کریں گے یہ ابھی واضح نہیں، ”افغان طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ عالمی دہشت گرد گروہوں سے تعلق توڑ دیں گے لیکن ابھی تک ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیسے کریں گے کیونکہ ابھی تک وہ باضابطہ طور پر اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔‘‘
طالبان اور چین کبھی بھی ‘برادرانہ دوست‘ نہیں بن سکتے کیونکہ مذہبی بنیادوں پر دونوں کے نظریات متصادم ہیں۔ کمیونسٹ چین لادین ہے، جس کا بنیادی موٹو مذاہب سے بالاتر ہو کر سماجی استحکام اور اقتصادی ترقی کا داعی ہے جب کہ افغان طالبان کے لیے مذہب ہی سب کچھ ہے۔ تاہم چین کی سفارتی پالیسی ایسی ہے کہ اس کے باوجود عملیت پسند چینی رہنما طالبان کے ساتھ پارٹنر شپ بنانے کی کوشش کریں گے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے گزشتہ ماہ ہی طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی، جس میں طالبان کے اہم سیاسی رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی شامل تھے۔ اس دوران چین نے امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان میں دہشت گردانہ خطرات اور تشدد کا خاتمہ ممکن ہوگا جبکہ ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔