تہران (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر ایران کی جانب سے انتہائی مسرت کا اظہار کیا گیا تھا تاہم ایرانی رویے میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ اب ایران اپنے شورش زدہ مشرقی ہمسائے کے بارے میں کسی حد تک فکر مند دکھائی دیتا ہے۔
افغانستان بارے میں بدھ ستائیس اکتوبر کو ہونے والی یہ بین الاقوامی کانفرنس افغانستان کے بارے میں تہران حکومت کے رویے میں تبدیلی کی عکاس ہے۔ اس کانفرنس میں افغانستان کے نئے حکمران یعنی طالبان شریک نہیں ہیں۔ وزرائے خارجہ کی سطح کے اس بین الاقوامی اجلاس میں افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
تہران منعقدہ اس کانفرنس میں پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ کو مدعو کیا گیا ہے۔ روس اور چین کے اعلیٰ سفارت کار ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شامل ہوں گے۔
افتتاحی اجلاس سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی خطاب کریں گے۔ سفارت کاروں کے مطابق ایران کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت کی تشکیل ہو جائے اور اس کے ساتھ ہی اس ملک کے سیاسی مستقبل کے خد و خال بھی واضح ہو سکیں۔
اس کانفرنس کا سب سے بنیادی مقصد یہ ہے کہ افغانستان کے ان تمام اندرونی حلقوں کی کوششوں کو سراہا جائے جو اپنے ملک کے مستقبل کو مناسب شناخت دینے کی سیاسی و سماجی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کوششوں کو وقعت دینے سے ہی افغان حلقے اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں گے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق تمام ہمسایہ ممالک کو تعمیری کردار اد کرنے کی ضرورت ہے۔ تہران حکومت کے اس نمائندہ بیان کے مطابق افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کم سے کم رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔
افغانستان میں کنٹرول رکھنے والی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایرانی پیش رفت کو مثبت قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا امید کی جاتی ہے کہ اس کانفرنس کے نتائج مثبت اور مفید ہوں گے۔
دوسری جانب امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ایرانی امور کی ماہر فاطمہ امان کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے ایران کے اندازے غلط ہیں،” افغان طالبان کی قیادت کا ڈھانچہ کثیر السطحی ہے اور اس باعث یہ خاصا پیچیدہ بھی ہے۔‘‘
امان کے مطابق ایسی قیادت کے ساتھ صرف ایران ہی نہیں بلکہ بقیہ ممالک کو بھی بات چیت کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ ایرانی حکومت طالبان کے ساتھ اپنے نمائندوں کے توسط سے مذاکرتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
طالبان کے اندرونی حلقوں میں حقانی نیٹ ورک کا گہرا اثر و رسوخ ہے اور یہ گروپ پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کا خیال ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں افغان شیعہ اقلیت پر خونی حملوں کے پسِ پردہ حقانی نیٹ ورک ہے۔
اس نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی امریکا کو مطلوب بھی ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے حقانی نیٹ ورک نے طالبان خودکش بمباروں کے خاندانوں کو مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور ان کو کاشت کے لیے زرعی اراضی بھی دی ہے۔ اس زرعی رقبے کا تعلق ہزارہ شیعہ آبادی کے زرخیز علاقوں سے ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ طالبان ہزارہ شیعہ آبادی کو ان کے دیہات سے باہر دھکیل رہے ہیں تاکہ شمالی افغانستان کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کیا جا سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ ہزارہ اقلیت کو منظم انداز میں سنی طالبان اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔