افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) وادی پنجشیر میں طالبان مخالف قوتیں اس وقت اکھٹی ہو کر گوریلا مزاحمتی عمل شروع کرنا چاہتی ہیں۔ یہ وہ آخری علاقہ ہے جس پر ابھی تک طالبان کو کنٹرول حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان کے شمال میں صرف وادی پنجشیر کا علاقہ رہ گیا ہے جہاں طالبان اپنا تسلط قائم نہیں کر سکے۔ ایسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ طالبان کو اس مقام سے مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سابق مفرور صدر اشرف غنی کی حکومت کے چند سینیئر وزراء بھی اسی علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان وزراء کی للکار کس حد تک طالبان کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے۔
افغانستان کے وسطی شمالی حصے میں کابل سے ڈیڑھ سو کلومیٹر یا ترانوے میل کی مسافت کوہ ہندوکش پہاڑی سلسلے میں پنجشیر وادی واقع ہے۔ اس وادی کے بیچوں بیچ پہاڑی راستوں میں سے تیز رفتار دریائے پنجشیر گزرتا ہے۔
اس ساری وادی میں قریب ڈیڑھ لاکھ نفوس بستے ہیں۔ یہ زیادہ تر تاجک ہیں اور افغانستان میں سب سے زیادہ تاجک نسل کی آبادی بھی اسی وادی میں رہتی ہے۔ طالبان میں اکثریت پشتون کی ہے۔ یہ وادی زمرد یا ایمرالڈ قیمتی پتھر سے بھری ہوئی ہے۔
پہلے یہ پروان صوبے کا حصہ ہوتی تھی لیکن سن 2004 میں اس کو ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا گیا تھا۔ اسی علاقے سے سابقہ سوویت یونین کی فوج کشی کے دوران مقتول جنگی سردار احمد شاہ مسعود نے اپنی حکمت عملی سے اس کا کامیابی سے دفاع کیا تھا۔
اب اسی وادی میں سابقہ کابل حکومت کے دو اہم ارکان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک اشرف غنی دور کے وزیر داخلہ بسم اللہ صابری اور دوسرے سابق نائب صدر امر اللہ صالح ہیں۔ اشرف غنی کے اقتدار سے فرار ہونے کے بعد امر اللہ صالح نے ملک کا قائم مقام صدر ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
امر اللہ صالح نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ وہ کسی بھی صورت میں طالبان دہشت گردوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اور نہ ہی انہیں تسلیم کریں گے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ وہ کبھی بھی اپنے ہیرو احمد شاہ مسعود کے ورثے سے دغا نہیں کریں گے۔
اپنے اس ٹوئٹ میں امراللہ نے مقتول لیڈر کو اپنا کمانڈر، رہنما اور لیجنڈ بھی قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ امراللہ صالح کا تعلق بھی پنجشیر سے ہے۔ وہ ستمبر سن 2001 میں القاعدہ کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد کا حصہ بھی تھے۔ مقتول لیڈر کو شیرِ پنجشیر بھی کہا جاتا ہے۔
وادی پنجشیر کا افغان عسکری تاریخ میں فیصلہ کن کردار مسلمہ ہے۔ اس کے بلند پہاڑوں کی وجہ سے یہ بقیہ ملک سے علیحدہ دکھائی دیتی ہے اور اس کے دروں کی مقامی لوگ حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں۔ اس میں داخل ہونے کا سب سے آسان مگر تنگ راستہ دریائے پنجشیر کی گزرگاہ ہے اور اس پر بھی مضبوط دفاعی چوکیاں قائم کرنا ممکن ہے۔
طالبان کے دور میں سن 1990 میں ہونے والی خانہ جنگی میں بھی اس پر قبضہ نہیں کیا جا سکا اور ایسے ہی سابقہ سوویت یونین کا ہوا تھا۔ طالبان کے افغانستان پر قبضے سے قبل بھی یہ علاقہ سابقہ حکومتوں سے زیادہ علاقائی خودمختاری کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ احمد مسعود کی شکل، عادات اور رویے اپنے والد جیسے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ ملک کے خصوصی فوجی دستوں کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔
یہ وہ فوجی ہیں جنہوں نے افغان فوج کے ہتھیار ڈالنے پر رنج اور غصے کا اظہار کیا تھا۔ احمد مسعود اور امر اللہ صالح کی اکھٹی تصاویر بھی سامنے آئی ہیں اور ان دونوں نے طالبان کے خلاف گوریلا مزاحمت شروع کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
احمد مسعود نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ انہیں ہتھیار دے تا کہ وہ طالبان کے خلاف اپنی کارروائیوں کے سلسلے کا آغاز کر سکیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پنجشیر وادی سے اٹھنے والی مزاحمتی للکار کتنی توانا اور بھرپور ہے۔ مبصرین اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ کابل کے نئے حکمران کا ردعمل کیا ہو گا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا کے ریسرچر مائیکل کُوگلمین کا کہنا ہے کہ طالبان کے الفاظ پر یقین کر لیا جائے تو بظاہر پنجشیر وادی محفوظ دکھائی دیتی ہے کیونکہ انہوں نے طاقت کا استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن نئی صورت حال کو سمجھنے کے لیے وقت درکار ہے۔
کُوگلمین کے مطابق ایک منظم مزاحمت پر طالبان زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے اور اگر وہ کوئی فوجی کارروائی کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کا امکان بھی موجود ہے۔ اس تناظر میں خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی پنجشیر کی مزاحمتی قوتیں کسی حد تک عسکری اعتبار سے کمزور بھی ہیں۔