کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے شمالی صوبے فاریاب میں طالبان کے چیک پوائنٹس پر حملے میں سرکاری سکیورٹی فورسز کے 22 اہل کار ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے ہیں۔
صوبائی کونسل کے سربراہ محمد طاہر رحمانی نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان مزاحمت کاروں نے ہفتے کی رات پولیس اور حکومت نواز ملیشیاؤں کے چیک پوائنٹس پر حملے کا آغاز کیا تھا ۔ان کی مدد کے لیے کمک کے طور پر فوج کو بھیجا گیا تھا۔ پھر ان کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی جو اتوار کی صبح تک جاری رہی تھی۔
گذشتہ ہفتے مغربی صوبے بادغیس میں طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملے کیے تھے جس کے بعد قریباً ایک سو افغان فوجیوں نے سرحد پار کرکے ہمسایہ ملک ترکمانستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔بادغیس کی صوبائی کونسل کے رکن محمد ناصر نزاری نے کہا ہے کہ فوجیوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔اس کے بعد ان کا کچھ اتا پتا نہیں کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ طالبان نے پکڑے گئے فوجیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔
اس صوبے کے ترجمان جمشید شہابی نے آج اتوار کو بتایا ہے کہ ضلع بالا مرغب میں طالبان کے خلاف جاری لڑائی میں 16 فوجی ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے ہیں۔ فوج نے طالبان پر فضائی حملے بھی کیے ہیں اور ان کے خلاف لڑائی کے لیے مزید کمک بھیج دی گئی ہے۔انھوں نے لڑائی میں 40 مزاحمت کاروں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے اور ان سے لڑائی میں کئی ایک فوجیوں کے راہ ِ فرار اختیار کرجانے کی تصدیق کی ہے۔
شہابی نے مزید کہا کہ صوبائی پولیس کے سربراہ اور آرمی کمانڈر اس ضلع ہی میں موجود ہیں اور وہ خود مزاحمت کاروں کے خلاف لڑائی میں ہدایات دے رہے ہیں۔ ناصر نزاری نے اس لڑائی میں 50 افغان فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے اور کہا ہے کہ قریباً ایک سو فوجی لاپتا ہیں۔انھوں نے مزید بتایا ہے کہ سیکڑوں مقامی افراد نے گورنر کے دفاتر کے باہر صوبے میں امن وامان کی ابتر صورت حال کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع بالا مرغب پر طالبان کا قریب قریب مکمل کنٹرول ہے اور افغان فورسز صرف ضلعی ہیڈکوارٹرز تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
ادھر مشرقی صوبے خوست میں داعش سے وابستہ ایک گروپ نے مقامی ٹی وی اور ریڈیو چینل ژمن سے وابستہ صحافی سلطان محمود خیر خواہ کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جمعہ کو دو موٹر سائیکل سواروں نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے اور پھر دم توڑ گئے تھے۔
واضح رہے کہ افغانستان دنیا میں صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں سے ایک ہے۔افغا ن صحافیوں کی تحفظ کمیٹی نے 2018ء میں صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے خلاف 121 حملوں کی اطلاع دی تھی ۔ان میں 17 صحافی ہلاک ہو گئے تھے۔