ہلمند (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا اور برطانیہ نے الزام لگایا ہے کہ طالبان پاکستانی سرحد کے قریب حال ہی میں قبضہ کیے گئے ایک قصبے میں ”شہریوں کا قتل عام” کررہے ہیں۔
ایسے وقت جبکہ افغان فورسز سب سے بڑے شہر پرطالبان کو قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے زبردست مقابلہ کر رہے ہیں، امریکا اور برطانیہ نے الزام لگایا ہے کہ طالبان پاکستانی سرحد کے قریب حال ہی میں قبضہ کیے گئے ایک قصبے میں ”شہریوں کا قتل عام” کررہے ہیں۔
ہفتے اور اتوار کے روز ہونے والی زبردست جنگ کے بعد، جس کی وجہ سے ہزاروں شہریوں کو اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے، طالبان جنگجووں نے کل رات تین صوبائی دارالحکومتوں لشکر گاہ، قندھار اور ہرات پر زبردست حملہ کیا ہے۔
ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں افغان حکومت کی طرف سے سینکڑوں کمانڈوز تعینات کرنے کا اعلان کیے جانے کے چند گھنٹے بعد ہی طالبان نے وہاں کے سٹی سینٹر اور جیل پر مربوط حملے کیے۔
بیس برس تک افغانستان میں رہنے کے بعد مئی کے اوائل میں امریکی قیادت والی غیر ملکی افواج کی جانب سے جنگ زدہ ملک سے مکمل انخلاء کے اعلان کے بعد سے ہی جنگ میں شدت آگئی ہے۔
صدر اشرف غنی نے ملک میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے لیے امریکا کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
اشرف غنی نے افغان پارلیمان سے خطاب کے دوران غیر ملکی افواج کے انخلاء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،”ہماری موجودہ صورت حال کا سبب یہ ہے کہ یہ فیصلہ اچانک کیا گیا۔” ڈاکٹر غنی نے کہا کہ انہوں نے امریکا کو متنبہ کیا تھا کہ فورسز کے انخلاء کے سنگین مضمرات ہوں گے۔
افغان صدر کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب واشنگٹن نے اعلان کیا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کے مدنظر وہ مزید ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو لے جانے کے لیے تیار ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران امریکا کے لیے کام کیا تھا۔
واشنگٹن نے پہلے ہی ان ہزاروں مترجمین اور ان کے خاندانوں کو افغانستان سے نکالنے کا کام شروع کردیا ہے جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکی فوج اور سفارت خانے کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔
امریکا اور برطانیہ نے پیر کے روز الزام لگایا کہ طالبان نے گزشتہ ماہ پاکستان کی سرحد کے قریب اسپن بولدک قصبے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں جس طرح کی زیادتیاں کی ہیں وہ ”جنگی جرائم” کے زمرے میں آتی ہیں۔
امریکا اور برطانیہ کا یہ بیان افغانستان کی آزاد انسانی حقوق کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنگجووں نے اسپن بولدک میں انتقامی قتل کیے ہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا،”طالبان نے موجودہ اور سابقہ حکومتی عہدیداروں کی شناخت کی اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی۔ انہوں نے ایسے افراد کو بھی قتل کردیا جن کا تصادم میں کوئی کردار نہیں تھا۔”
امریکی اور برطانوی سفارت خانوں نے الگ الگ ٹوئٹ میں کہا کہ قتل کے یہ واقعات”جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔”
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے بھی جنگجو رہنماوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبریں ”انتہائی پریشان کن اور یکسر ناقابل قبول ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ طالبان جو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کے خواہاں ہیں، اس طرح کی زیادتیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی کہا کہ طالبان کے حملوں سے واضح ہوتا ہے کہ ”انسانی زندگیوں کا انہیں ذرا بھی احترام نہیں ہے۔ اگر وہ بات چیت کے ذریعہ تصادم کا حل تلاش کرنے کے تئیں واقعی مخلص ہیں تو انہیں ایسے بھیانک حملے بند کرنے ہوں گے۔”
دریں اثنا طالبان نے لشکر گاہ پر اپنا دباو بڑھا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر وہاں طالبان کا کنٹرول ہوجاتا ہے تو یہ حکومت کے لیے ایک زبردست فوجی اور نفسیاتی دھچکا ثابت ہوگا۔
قندھار او رہرات میں بھی زبردست جنگ چل رہی ہے۔ افغان فورسز ان شہروں کو طالبان کے کنٹرول میں جانے سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔
افغان امور کے ماہر نشانک موتوانی کے خیال میں ”اگر افغان کے شہروں کا سقوط ہوجاتا ہے… تو افغانستان سے افواج کے انخلاء کے امریکا کے فیصلے کو امریکی خارجہ پالیسی میں سب سے بدترین دفاعی غلطیوں میں سے ایک کے طور پر یاد کیا جائے گا۔”